رسائی کے لنکس

اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالوں کی رہائی پر جلد معاہدہ ہونے کا امکان، بائیڈن


اسرائیل میں شہری یرغمالوں کی بازیابی کے لیے مستقل احتجاج کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
اسرائیل میں شہری یرغمالوں کی بازیابی کے لیے مستقل احتجاج کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کے لیےجلد ایک معاہدہ ہونے کا امکان ہے جب کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ فریقین معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق قطر کی معاونت سے اسرائیل اور حماس میں معاملات طے کرنے کا عمل جاری ہے جس کے تحت ممکنہ طور پر عارضی جنگ بندی کے بدلے کچھ یرغمالوں کو رہا کیا جائے گا۔

وائٹ ہاؤس میں پیر کو ایک تقریب کے دوران جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے یرغمالوں کی رہائی کے لیے معاہدے سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ایسا ہی ہے۔

انہوں نے اپنی دو انگلیوں سے اس طرح نشان بنایا کہ انہیں سب اچھا ہونے کی امید ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حماس کے سیاسی مرکز کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

ان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب غزہ میں اسرائیلی فورسز کی بمباری جاری ہے اور علاقے ے اسرائیل پر میزائل داغے جا رہے ہیں۔

اسرائیلی یرغمالیوں کی بازیابی کی مہم؛ کیا اس سے فرق پڑے گا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:55 0:00

حماس نے ان مذاکرات میں معاونت کرنے والے ملک قطر کو بھی اس پیش رفت سے آگاہ کر دیا ہے۔تاہم اس نے معاہدے کے حوالے سے مزید تفصیلات جاری نہیں کیں۔

قبل ازیں پیر کو انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی صدر ماریانا نے قطر میں اسماعیل ہنیہ سے ملاقات کی تھی۔

ریڈ کراس نے بیان میں کہا تھا کہ وہ یرغمالوں کی رہائی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں شامل نہیں البتہ وہ مستقبل میں یرغمالوں کی رہائی کے لیے ہونے والے اقدامات میں معاونت کر سکتی ہے۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق قطر کے وزیرِ اعظم محمد بن عبد الرحمٰن بن جاسم الثانی نے اتوار کو بتایا تھا کہ حماس کے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے 240 افراد میں سے عارضی جنگ بندی کے بدلے کچھ کی رہائی کے لیے معاہدے کے قریب ہیں۔ اس معاہدے میں کچھ معمولی نوعیت کی تفصیلات طے کرنا باقی ہیں۔

دوسری جانب عارضی جنگ بندی اور یرغمالوں کی بازیابی سے متعلق وائٹ ہاؤس نے بھی کہا ہے کہ مذاکرات آخری مراحل میں ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے بھی ان مذاکرات کی مزید تفصیلات جاری نہیں کیں۔ زیادہ تفصیلات سامنے آنے پر اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے مذاکرات میں تعطل آ سکتا ہے۔

امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ " ہم سمجھوتے کے زیادہ قریب آ چکے ہیں اور ہم بہتری کے لیے پر امید ہیں۔"

اسرائیل کی زمینی کارروائی: کیا حماس ختم ہو سکے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:13 0:00

ان کے بقول اس کے بعد بھی کافی کچھ کرنا باقی ہے۔ اور اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہوگا جب تک سب کچھ نہ ہو جائے۔ تو اسی لیے ہم اس حوالے سے مسلسل کام کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ہفتے کو امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ سامنے آئی تھی کہ پانچ روزہ جنگ بندی کے عوض حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے کئی درجن خواتین اور بچوں کو رہا کرنے کا معاہدہ جلد ہونے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ 240 کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا جن میں سے کئی اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں۔

حماس کے مطابق ان مغویوں میں سے بعض اسرائیل کے غزہ پر جاری حملوں میں ہلاک بھی ہوئے ہیں جن میں سے چند ایک کی ویڈیوز اور تصاویر بھی جاری کی گئی تھیں۔

حماس کے حملے کے بعد ہی اسرائیلی فورسز نے غزہ کا محاصرہ کرکے بمباری شروع کر دی تھی۔ اسرائیلی حکومت نے یرغمالوں کی رہائی اور حماس کے خاتمے تک اعلان جنگ کیا تھا۔ اس جنگ کے دوران اب تک حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق لگ بھگ 13 ہزار 300 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 5600 بچے اور 3550 خواتین شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حماس کے قبضے میں موجود یرغمالوں میں سے بیشتر اسرائیلی ہیں۔ البتہ ان میں بعض کے پاس امریکہ، جرمنی سمیت دیگر ممالک کی بھی شہریت ہے۔ 35 افراد ایسے یرغمالی بتائے جا رہے ہیں جو کہ اسرائیل کے شہری نہیں ہیں ان میں زیادہ تر کا تعلق تھائی لینڈ سے ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ اور اس کے متعدد اتحادی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

یرغمالوں کی رہائی اور جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات کے حوالے سے وائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکیورٹی کے نائب مشیر جون فینر نے نشریاتی ادارے ’این بی سی‘ کو اتوار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے حساس معاملات پر مذاکرات آخری لمحے میں بھی ختم ہونے کے خدشات ہوتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی چیز پر اتفاق نہیں ہوتا جب تک ہر بات پر اتفاق نہ ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ان مذاکرات کے حوالے سے زیادہ تفصیلات سامنے نہیں لا سکتے کیوں کہ اس سے تعطل کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔

قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ فریقین کے درمیان طے ہونے والے معاملات ہیں اس لیے وہ اس پر مزید تفصیلات نہیں بتا سکتے۔

اس تحریر میں خبر رساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG