رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: سعودی عرب کے لیے گھریلو ملازمائیں بھرتی کرنے والے 166 ادارے بند


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سعودی عرب میں گھروں میں کام کرنے والی خواتین پر تشدد اور ان کے ریپ کے الزامات کے بعد بنگلہ دیش نے سعودی عرب کے لیے ملازماؤں کو بھرتی کرنے والی 166 ایجنسیوں کو بند کر دیا ہے۔

بنگلہ دیش کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایجنسیاں ملازماؤں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں جبکہ ان کی بندش ریاض حکام سے ہونے والی بات چیت کے بعد عمل میں لائی گئی ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب میں مقیم ریکروٹرز کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی اقتصادی صورت حال میں بہتری کے بعد ان کے ہاں سماجی میڈیا پر ان گھریلو ملازماوں کو واپس بلانے کی مہم جاری تھی۔ حکومت کا فیصلہ اس مہم کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔

ڈھاکہ حکومت کے مطابق 1991 سے اب تک تین لاکھ بنگلہ دیشی خواتین سعودی عرب گئیں۔ جن میں سے اکثر گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر رہی ہیں لیکن گزشتہ چند ماہ میں متعدد جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں بھرتی کرنے والوں پر جنسی غلام بنا کر فروخت کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ جس کے بعد ان خواتین کی بنگلہ دیش واپسی شروع ہوئی ہے۔

سعودی عرب میں گزشتہ ماہ ایک بنگلہ دیشی ملازمہ کی خفیہ طور پر بنائی ہوئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد بنگلہ دیش میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

بنگلہ دیشی حکومت کے ترجمان منیر صالحین نے بتایا ہے کہ جن ایجنسیوں کو بند کیا گیا ہے وہ تارکین وطن کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی تھیں اور بعض معاملات میں انہیں واپس ان کے آجروں کے پاس بھیج دیتی تھیں۔

سعودی عرب میں افرادی قوت کی فراہمی کے پیشہ سے وابستہ جہانزیب منہاس کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ہر ایک گھریلو ملازمہ کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تشدد کرتے ہیں لیکن ہر ایک کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔

جہانزیب منہاس نے بتایا کہ بنگلہ دیش کی معیشت بہتر ہو رہی ہے جبکہ ان کے ہاں طویل عرصے سے سماجی میڈیا پر مہم چل رہی تھی کہ گھریلو ملازمائیں سعودی عرب نہ بھیجی جائے۔

ان کے بقول بنگلہ دیش کی حکومت نے عوامی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات کیے ہیں۔

جہائزیب منہاس کا کہنا ہے کہ پاکستان سے سعودی عرب گھریلو ملازمائیں نہیں آتیں۔ یہ بنگلہ دیش، بھارت، انڈونیشیا، فلپائن اور ایتھوپیا وغیرہ سے آتی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان میں سب سے زیادہ خواتین فلپائین سے آتی ہیں جس کے بعد بھارت اور انڈونیشیا کا نمبر آتا ہے جبکہ پاکستان اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔

ان کے بقول بعض پاکستانی خواتین جو طویل عرصے سے یہاں رہ رہی ہیں وہ گھریلو ملازمہ کا بھی کام کر رہی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔

دوسری جانب بنگلہ دیش کی بیرون ملک شہریوں کی بہبود کی وزارت کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان ایجنسیوں کی بندش ریاض میں سعودی اور بنگلہ دیشی حکام کے درمیان بات چیت کے بعد ہوئی لیکن دونوں ممالک نے طے کیا کہ خواتین ملازمین کے تحفظ کے لیے آن لائن ڈیٹا بیس کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی پولیس نے رضا مندی ظاہر کی ہے کہ آجروں سے فرار ہونے والی بنگلہ دیشی گھریلو ملازماؤں کو واپس ان کے آجروں کے حوالے نہیں کیا جائے گا جبکہ کسی ملازمہ کو خطرہ درپیش ہوا تو سعودی محکمہ تحفظ اور مدد فوری کارروائی کرے گا۔

ڈھاکہ حکام نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ ان 32 خواتین کو بھی وطن واپس لانے کے لیے کوشاں ہے جو آجروں سے فرار ہونے کے بعد حراستی مراکز میں قید ہیں جبکہ انہوں نے خفیہ طور پر فلم بنا کر مدد کی اپیل کی تھی۔

XS
SM
MD
LG