کوئٹہ —
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بدامنی اور جبری گمشدگیوں سے متعلق مقدمے میں سپریم کورٹ نے ایک عبوری حکم میں کہا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کوئٹہ میں مقدمے کی سماعت کے بعد جمعہ کو جاری کردہ عبوری حکم نامے میں کہا کہ بلوچستان میں خفیہ اداروں کی مداخلت ثابت ہو گئی ہے۔
عدالت نے کہا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس ’ایم آئی‘ صوبے میں غیر قانونی گاڑیوں کو چلانے اور اسلحہ کی راہداریاں جاری کرتی رہی ہیں اور حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ کسی طرح کی راہداری جاری نہ کریں۔
سُپریم کورٹ نے ٹارگٹ کلنگ، لاپتہ افراد، اغوا برائے تاوان اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات سے متعلق کی جانے والی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کر تے ہوئے یہ ذمہ داری سی آئی ڈی (کرائم انویسٹیگیشن ڈپارٹمنٹ) کے حوالے کرنے کا بھی حکم دیا اور متعلقہ ادارے کو اس ضمن میں رپورٹ بلوچستان ہائی کورٹ میں پیش کر نے کی ہدایت بھی کی۔
عبوری حکم نامے میں کہا گیا کہ گزشتہ چھ برسوں کے دوران بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں فرنٹئیر کور کے 432 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس کے باجود صوبے میں جبری گمشدگیوں کی واردارتوں کا ذمہ دار اسی ریاستی ادارے کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اب بھی صوبے کے مختلف علاقوں سے مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تین رکنی بینچ نے کہا کہ جن افراد کی لاشیں مل رہی ہیں ان کے لواحقین کو معاوضہ دینے کے بارے میں پہلے ہی عدالت فیصلہ دے چکی ہے اور حکام اس پر عمل درآمد کو تیز کریں۔
صوبے کی اقتصادی صورت حال کے بارے میں عدالت نے کہا کہ بلوچستان میں صنعتیں اور دیگر معاشی سر گرمیاں نہ ہونے کے باعث نوجوانوں کو روز گار کے مواقع نہیں مل رہے جس سے وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ بلوچستان میں احساس محرومی کے خاتمے کے لیے جلد سے جلد مناسب اقدامات کئے جائیں۔
سپر یم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ عدالتی حکم نامے سے متعلق بیس دنوں میں جواب داخل کیا جائے اور اس ضمن میں کیے جانے والے اقدامات سے بھی عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
عدالت نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل امان کنرانی یہ کہہ چکے ہیں کہ صاف شفاف انتخابات صوبے کے مسائل کا حل ہیں اس لیے آئندہ عام انتخابات کے آزادانہ انعقاد کے حوالے سے صوبائی حکام اپنی ذمہ داری پوری کریں۔
اس سے قبل جمعہ ہی کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ بلوچستان میں عام انتخابات کے انعقاد کی راہ میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
’’مجھے کوئی ایسی رکاوٹ نہیں بتائی گئی جس میں الیکشن ممکن نہ ہوں، بلوچستان میں چند حساس اضلاع ہیں اس کے لیے (انتخابات کے انعقاد کے لیے) لیویز، ایف سی اور ضرورت پڑی تو فوج بھی بلا سکتے ہیں۔‘‘
ایک روز قبل وزیر دفاع نوید قمر کی سربراہی میں قائم خصوصی کمیٹی نے بلوچستان کے مسائل کے دیرپا حل سے متعلق سفارشات پر مبنی اپنی رپورٹ کابینہ کے اجلاس میں پیش کی تھی۔ تاہم حکومتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ تمام متعلقین سے مزید مشاورت کے بعد ہی کمیٹی کی تجاویز کی حتمی منظوری دی جائے گی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کوئٹہ میں مقدمے کی سماعت کے بعد جمعہ کو جاری کردہ عبوری حکم نامے میں کہا کہ بلوچستان میں خفیہ اداروں کی مداخلت ثابت ہو گئی ہے۔
عدالت نے کہا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس ’ایم آئی‘ صوبے میں غیر قانونی گاڑیوں کو چلانے اور اسلحہ کی راہداریاں جاری کرتی رہی ہیں اور حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ کسی طرح کی راہداری جاری نہ کریں۔
سُپریم کورٹ نے ٹارگٹ کلنگ، لاپتہ افراد، اغوا برائے تاوان اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات سے متعلق کی جانے والی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کر تے ہوئے یہ ذمہ داری سی آئی ڈی (کرائم انویسٹیگیشن ڈپارٹمنٹ) کے حوالے کرنے کا بھی حکم دیا اور متعلقہ ادارے کو اس ضمن میں رپورٹ بلوچستان ہائی کورٹ میں پیش کر نے کی ہدایت بھی کی۔
عبوری حکم نامے میں کہا گیا کہ گزشتہ چھ برسوں کے دوران بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں فرنٹئیر کور کے 432 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس کے باجود صوبے میں جبری گمشدگیوں کی واردارتوں کا ذمہ دار اسی ریاستی ادارے کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اب بھی صوبے کے مختلف علاقوں سے مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تین رکنی بینچ نے کہا کہ جن افراد کی لاشیں مل رہی ہیں ان کے لواحقین کو معاوضہ دینے کے بارے میں پہلے ہی عدالت فیصلہ دے چکی ہے اور حکام اس پر عمل درآمد کو تیز کریں۔
صوبے کی اقتصادی صورت حال کے بارے میں عدالت نے کہا کہ بلوچستان میں صنعتیں اور دیگر معاشی سر گرمیاں نہ ہونے کے باعث نوجوانوں کو روز گار کے مواقع نہیں مل رہے جس سے وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ بلوچستان میں احساس محرومی کے خاتمے کے لیے جلد سے جلد مناسب اقدامات کئے جائیں۔
سپر یم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ عدالتی حکم نامے سے متعلق بیس دنوں میں جواب داخل کیا جائے اور اس ضمن میں کیے جانے والے اقدامات سے بھی عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
عدالت نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل امان کنرانی یہ کہہ چکے ہیں کہ صاف شفاف انتخابات صوبے کے مسائل کا حل ہیں اس لیے آئندہ عام انتخابات کے آزادانہ انعقاد کے حوالے سے صوبائی حکام اپنی ذمہ داری پوری کریں۔
اس سے قبل جمعہ ہی کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ بلوچستان میں عام انتخابات کے انعقاد کی راہ میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
’’مجھے کوئی ایسی رکاوٹ نہیں بتائی گئی جس میں الیکشن ممکن نہ ہوں، بلوچستان میں چند حساس اضلاع ہیں اس کے لیے (انتخابات کے انعقاد کے لیے) لیویز، ایف سی اور ضرورت پڑی تو فوج بھی بلا سکتے ہیں۔‘‘
ایک روز قبل وزیر دفاع نوید قمر کی سربراہی میں قائم خصوصی کمیٹی نے بلوچستان کے مسائل کے دیرپا حل سے متعلق سفارشات پر مبنی اپنی رپورٹ کابینہ کے اجلاس میں پیش کی تھی۔ تاہم حکومتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ تمام متعلقین سے مزید مشاورت کے بعد ہی کمیٹی کی تجاویز کی حتمی منظوری دی جائے گی۔