رسائی کے لنکس

بلوچستان: اقلیتی رکن اسمبلی کا قاتل گرفتار


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

ملزم کو ہفتہ کو رات دیر گئے پولیس نے گرفتار کر لیا تھا اور حکام کے مطابق عدالت سے اس کا چھ روزہ ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

بلوچستان اسمبلی کے اقلیتی رکن ہینڈی مسیح کی اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد صوبے میں مقیم عیسائی برادری مزید عدم تحفظ کا شکار ہوگئی ہے اور اس برادری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ حالات پہلے بھی اتنے سازگار نہیں تھے لیکن اس واقعے کے بعد وہ اپنی سلامتی کے بارے میں مزید پریشان ہوگئے ہیں۔

ہینڈری مسیح کو ہفتہ کو کوئٹہ میں ان کے گھر پر ان ہی کی حفاظت پر تعینات ایک محافظ نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا اور موقع سے فرار ہو گیا تھا۔

ملزم کو ہفتہ کو رات دیر گئے پولیس نے گرفتار کر لیا تھا اور حکام کے مطابق عدالت سے اس کا چھ روزہ ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ تاہم انھوں نے اس واقعے کے محرکات کے بارے میں کچھ بتانے سے گریز کیا۔

کوئٹہ میں عیسائی برادری کے ایک رہنما جارج مسیح نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستانی ہونے کے باوجود ان کی برادری شروع ہی سے امتیازی سلوک کا شکار رہی ہے۔

"ہر شخص یہاں پر غیرمحفوظ ہے۔ میں اگر یہ کہوں کہ صرف عیسائی ہی ہیں تو یہ بھی غلط ہے کیوں کہ بات یہ ہے کہ عیسائیوں کو ابھی تک انھوں نے چاہے وہ بلوچ ہے چاہے وہ پٹھان ہے چاہے پنجابی ہے چاہے سندھی ہے وہ خدمت گزار ہی سمجھتے ہیں ان کو جس طرح سے پکارا جاتا ہے معذرت کے ساتھ کہتے ہوئے شرم آتی ہے امتیا زی سلوک تو ہیں۔"

صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بھر پور اقدامات کر رہی ہے اور اس تازہ واقعے کو فی الوقت مذہبی منافرت کے تناظر میں دیکھنا مناسب نہیں۔

بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ماضی کی نسبت پرتشدد واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

"ہر عام خاص کو پچھلے تین چار سال میں یہی مسئلہ تھا کہ اغواء برائے تاوان یہ تو ہندو تھے چاہے مسلمان تھے چاہے کوئی بھی کمیونٹی چاہے بلوچ تھا پٹھان تھا سب اٹھائے جا رہے تھے۔ وہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا تو ابھی جو پوزیشن ہے وہ تو واضح ہو گئی اِکا دُکا واقعات ہوتے ہیں ایک دم تو چیزیں کو ختم نہیں ہو سکتیں لیکن پھر بھی اس چیز کنٹرول کیا گیا ہے۔ "

دریں اثناء اتوار کی دوپہر ہینڈی مسیح کی آخری رسومات ان کے آبائی علاقے مستونگ میں ادا کر دی گئیں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ عیسائی برادری کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

پاکستان کا یہ جنوب مغربی صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے اور یہاں ایک دہائی سے متعدد عکسریت پسند تنظیموں کی کارروائیاں جاری ہیں جن میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔

حالیہ برسوں میں صوبے میں ملک کے دیگر علاقوں سے آکر آباد ہونے والوں کو بھی ہدف بنا کر قتل کیا جاتا رہا ہے جب کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی شدت آئی اور اس کا نشانہ ہندو برادری کے لوگ بھی بنے۔

علاوہ ازیں بلوچستان میں ہلاکت خیز فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات بھی ہوتے آئے ہیں۔

گزشتہ اتوار کو بھی ایران سے مقدس مقامات کی زیارت کے بعد وطن واپس آنے والے شیعہ زائرین پر ہونے والے ایک بم حملے میں کم ازکم 23 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
XS
SM
MD
LG