کوئٹہ —
قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن ملک کے سب سے پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان حالیہ برسوں میں تشدد کے واقعات اور بدامنی میں لپیٹ میں رہا ہے جب کہ تین ماہ قبل عام انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت کی طرف سے امن و امان کی بحالی کو اپنی ترجیحات قرار دینے کے باوجود حالیہ ہفتوں میں صورتحال بتدریج خراب ہوتی نظر آتی ہے۔
صوبے میں مسلم لیگ ن، نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہے۔ اب تک صرف تین صوبائی وزراء نے اپنے عہدوں کو حلف اٹھایا ہے لیکن تاحال انھیں محکموں کے قلمدان نہیں سونپے گئے ہیں ۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ صوبے میں امن و امان کی بحالی سمیت دیگر حل طلب معاملات میں تاخیر کی وجوہات میں سے ایک صوبے کی حکومتی امور چلانے کے لیے آئین میں موجود طریقہ کار پر عمل درآمد نہ کیا جانا بھی شامل ہے۔
صوبے کے سابق ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں یہ انکشاف کیا کہ صوبائی کابینہ کی عدم موجودگی میں حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کی حیثیت غیر آئینی قرار دی جا سکتی ہے۔
’’حکومت کی پاور ایکسرسائز کرنے کے لیے تین فریقوں کا ہونا ضروری ہے، گورنر، وزیراعلیٰ اور کابینہ، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کم ہو تو حیثیت غیر آئینی ہوجائے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کی عدم موجودگی میں حکومت کے اقدامات کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہےاور عدالت اس پر آئین کے آرٹیکل 120 اور 130 کے تحت فیصلہ دے سکتی ہے کیونکہ امان اللہ کنرانی کے بقول رولز آف بزنس میں واضح طور درج ہے کہ کونسے معاملات وزیراعلیٰ کے لیے ہیں اور کن معاملات میں کابینہ کا ہونا ضروری ہے۔
لیکن وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت کسی غیر آئینی اقدام کی مرتکب نہیں ہوئی اور جلد ہی کابینہ میں دیگر وزراء کو شامل کر لیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا۔
’’کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی، اس میں کوئی مشکلات بھی نہیں ہیں۔ یہ ایک اتحادی حکومت ہے تین جماعتوں کی، تو مسلم لیگ ن کی قیادت کی کچھ مصروفیات ہیں اس لیے چند دنوں میں ہم مشاورت مکمل کرلیں گے اور کابینہ بھی بن جائے گی۔‘‘
عبدالمالک بلوچ نے صوبے کے حالات میں مزید خرابی کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کی نسبت حالات میں بہتری آئی ہے۔ ان کے بقول گزشتہ برسوں کی نسبت صوبے میں جبری گمشدگیوں اور گولیوں سے چھلنی لاشیں ملنے کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
’’ پہلے کرپشن کا بہت بڑا الزام تھا سابقہ حکمرانوں پر، ہم نے اس کے بارے میں کئی اقدامات کیے ہیں پھر جو مختلف قبائل امن و امان کی وجہ سے بے گھر ہوئے تھے ان کو آبادکاری کی جارہی ہے ۔۔۔ فرقہ وارانہ تشدد میں کافی کمی ہوئی ہے تو اس میں مزید بہتری کریں گے۔‘‘
جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس بھی لے رکھا ہے جس کی کوئٹہ رجسٹری میں ہونے والی ایک سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ریاست کی عمل داری کو یقینی بناتے ہوئے امن و امان کی بحالی کو یقینی بنائے۔
صوبے میں مسلم لیگ ن، نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہے۔ اب تک صرف تین صوبائی وزراء نے اپنے عہدوں کو حلف اٹھایا ہے لیکن تاحال انھیں محکموں کے قلمدان نہیں سونپے گئے ہیں ۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ صوبے میں امن و امان کی بحالی سمیت دیگر حل طلب معاملات میں تاخیر کی وجوہات میں سے ایک صوبے کی حکومتی امور چلانے کے لیے آئین میں موجود طریقہ کار پر عمل درآمد نہ کیا جانا بھی شامل ہے۔
صوبے کے سابق ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں یہ انکشاف کیا کہ صوبائی کابینہ کی عدم موجودگی میں حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کی حیثیت غیر آئینی قرار دی جا سکتی ہے۔
’’حکومت کی پاور ایکسرسائز کرنے کے لیے تین فریقوں کا ہونا ضروری ہے، گورنر، وزیراعلیٰ اور کابینہ، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کم ہو تو حیثیت غیر آئینی ہوجائے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کی عدم موجودگی میں حکومت کے اقدامات کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہےاور عدالت اس پر آئین کے آرٹیکل 120 اور 130 کے تحت فیصلہ دے سکتی ہے کیونکہ امان اللہ کنرانی کے بقول رولز آف بزنس میں واضح طور درج ہے کہ کونسے معاملات وزیراعلیٰ کے لیے ہیں اور کن معاملات میں کابینہ کا ہونا ضروری ہے۔
لیکن وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت کسی غیر آئینی اقدام کی مرتکب نہیں ہوئی اور جلد ہی کابینہ میں دیگر وزراء کو شامل کر لیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا۔
’’کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی، اس میں کوئی مشکلات بھی نہیں ہیں۔ یہ ایک اتحادی حکومت ہے تین جماعتوں کی، تو مسلم لیگ ن کی قیادت کی کچھ مصروفیات ہیں اس لیے چند دنوں میں ہم مشاورت مکمل کرلیں گے اور کابینہ بھی بن جائے گی۔‘‘
عبدالمالک بلوچ نے صوبے کے حالات میں مزید خرابی کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کی نسبت حالات میں بہتری آئی ہے۔ ان کے بقول گزشتہ برسوں کی نسبت صوبے میں جبری گمشدگیوں اور گولیوں سے چھلنی لاشیں ملنے کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
’’ پہلے کرپشن کا بہت بڑا الزام تھا سابقہ حکمرانوں پر، ہم نے اس کے بارے میں کئی اقدامات کیے ہیں پھر جو مختلف قبائل امن و امان کی وجہ سے بے گھر ہوئے تھے ان کو آبادکاری کی جارہی ہے ۔۔۔ فرقہ وارانہ تشدد میں کافی کمی ہوئی ہے تو اس میں مزید بہتری کریں گے۔‘‘
جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس بھی لے رکھا ہے جس کی کوئٹہ رجسٹری میں ہونے والی ایک سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ریاست کی عمل داری کو یقینی بناتے ہوئے امن و امان کی بحالی کو یقینی بنائے۔