بلوچستان کی حکومت نے وفاق سے کہا ہے کہ صوبے کا کوئی بھی علاقہ شکار کے لئے الاٹ کرنے سے پہلے صوبائی حکومت سے رجوع کیا جائے، کیونکہ 18 ویں ترمیم کے تحت پرندوں کے شکار کے لائسنس اور پرمٹ کا اجرا حکومت بلوچستان کا اختیار ہے۔
صوبائی حکومت کے تعلقات عامہ کے ایک خبرنامے میں بتایا گیا ہے کہ یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ خان زہری کی زیر صدارت جمعے کو ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبائی کابینہ نے بلوچستان وائلڈلائف ایکٹ 2014 پر مکمل طور پر عملدرآمد کے ذریعے جنگلی حیات کے تحفظ اور غیرقانونی شکار کی مکمل روک تھام کو یقینی بنانے کی ضرورت سے اتفاق کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ 18ویں ترمیم کے تحت پرندوں کے شکار کے لائسنس اور پرمٹ کا اجراء حکومت بلوچستان کا اختیار ہے۔ لہذا، وزارت خارجہ صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر شکار کے لائسنس اور پرمٹ کے اجراء کی مجاز نہیں ہوگی۔
وفاقی حکومت صوبے کا کوئی بھی علاقہ شکار کےلئے الاٹ کرنے کےلئے صوبائی حکومت سے رجوع کرے گی۔ کابینہ نے پرندوں کی افزائش کے علاقوں میں شکار پر مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ صوبائی کابینہ نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ صوبائی محکمہٴ جنگلات اور جنگلی حیات کی جانب سے پرمٹ اور لائسنس کے اجراء کے بغیر ہر شکار غیر قانونی تصور ہوگا؛ اور تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر غیر قانونی شکار کی روک تھام کے ذمہ دار ہوں گے، جبکہ شکار کے پرمٹ اور لائسنس کے اجراء کے حوالے سے متعلقہ اضلاع کے عوام اور اراکین اسمبلی کے تحفظات کو دور کیا جائے گا۔
بلوچستان میں ہی رواں ہفتے کے دوران ہی پاک افغان سرحد کے قریب ضلع نوشکی کے علاقے میں تلور کا غیر قانونی شکار کرنے کے الزام میں قطر سے تعلق رکھنے والے چار عرب باشندوں اور اُن کے چھ مقامی ملازمین کو حراست میں لے لیا تھا۔
بلوچستان میں ہر سال وسطی ایشائی ریاستوں سے 7000 سے زائد تلور موسم سرما سے پہلے ژوب ڈویژن کے علاقوں سے گزرتے اور موسم بہار کے آغاز پر واپس وسطی ایشائی ریاستوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس چار ماہ کے دوران، عرب شیوخ وزارتِ خارجہ کے خصوصی اجازت ناموں کے ساتھ اپنے مقامی ملازمین سمیت بلوچستان، خیبر پختوا اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں ان پرندوں کا تربیت شدہ بازوں کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔
اس پرندے کو عالمی سطح پر معدومی کے خطرے سے دوچار پرندوں کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ان کی تعداد دس ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے رواں سال کے دوران 23 مارچ کو انتظامیہ کی طرف سے ضلع ژوب کے علاقے میں غیر قانونی طور شکار کئے گئے 75 تلور برآمد کرنے کے بعد صوبے میں تلور سمیت تمام پرندوں کے غیر قانونی شکار پر پابندی عائد کر دی تھی۔