رسائی کے لنکس

گوادر دھرنا: بغاوت کے الزام میں گرفتار 80 سالہ یوسف مستی خان کون ہیں؟


پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں تین ہفتوں سے جاری دھرنے میں ملک مخالف تقریر کے الزام میں گرفتار کیے گئے 80 سالہ بزرگ سیاست دان یوسف مستی خان کو گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔

یوسف مستی خان کو جمعرات کو گوادر پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ کینسر کے مریض ہیں۔

یوسف مستی خان بائیں بازو کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ ان کا تعلق بلوچستان کے علاقے جیونی سے ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن سے کیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے بلوچ سیاست دان شیر باز خان مزاری کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور پارٹی کے کراچی کے صدر رہنے کے ساتھ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے بھی رکن رہے۔

یوسف مستی خان نے بعدازاں پاکستان نیشنل پارٹی اور پھر عوامی ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس کے اب وہ مرکزی صدر ہیں۔ یوسف مستی خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سرداری اور جاگیردارانہ نظام کے ناقد جب کہ صوبائی خود مختاری کے زبردست حامی ہیں۔


یوسف مستی خان پر کیا الزام ہے؟

پولیس کا الزام ہے کہ یوسف مستی خان نے آٹھ دسمبر کو گوادر میں 'حق دو بلوچستان تحریک' کے دھرنے میں ریاست مخالف تقریر کے دوران کہا کہ پاکستان نے بزور طاقت بلوچستان پر قبضہ کیا۔ حکومت نے بلوچوں کو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق یوسف مستی خان نے پاکستان کی مسلح افواج اور خفیہ اداروں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کیں۔

یوسف مستی خان اور 'حق دو بلوچستان تحریک' کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف درج مقدمات میں ملک کے خلاف لوگوں کو جنگ پر اکسانے اور ملک کے خلاف بغاوت کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

گوادر دھرنا: 'ہم سی پیک کے خلاف نہیں، اپنے حقوق کی بات کر رہے ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:44 0:00


انسانی حقوق کارکنوں اور تنظیموں کا اظہار تشویش

یوسف مستی خان کی گرفتاری پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے بھی مذمت اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اپنے آئینی اور قانونی حقوق مانگنے کی پاداش میں ان پر نو آبادیاتی قوانین کے تحت مقدمہ درج کرنا غیر جمہوری عمل ہے۔

یوسف مستی خان کی گرفتاری کے بعد دھرنے کے قائدین کی جانب سے تھانے کے گھیراؤ کا اعلان کیا گیا لیکن اس سے پہلے ہی پولیس کی بھاری نفری پورٹ روڈ کے وائی جنکشن پر جاری دھرنے کے مقام پر پہنچ گئی اور مقدمے میں نامزد مولانا ہدایت الرحمان کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اطلاع ملتے ہی شہر بھر سے خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نے دھرنے کے مقام کا رخ کر لیا جس کے بعد شہر میں رات گئے تک صورتِ حال کشیدہ رہی۔

البتہ مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ ان کا دھرنا آئینی، قانونی اور جمہوری حقوق کے لیے ہے، وہ گرفتاری دینے کو بھی تیار ہیں لیکن دھرنا مطالبات پر عمل درآمد تک جاری رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنا ان کا حق ہے لیکن انتظامیہ حالات خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ادھر دوسری جانب دھرنے کے شرکا نے جمعے کو احتجاجی جلوس کی کال بھی دے رکھی ہے جس میں دیگر اضلاع سے بھی لوگ پہنچ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ گوادر میں لگ بھگ ایک ماہ سے 'حق دو بلوچستان' تحریک کے تحت دھرنا جاری ہے۔

مظاہرین گوادر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، غیر قانونی فشنگ کی روک تھام، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی کے مطالبات کر رہے ہیں۔

دھرنے کی قیادت جماعت اسلامی پاکستان کے مقامی رہنما ہدایت الرحمان کر رہے ہیں جو دھرنے کے مقام پر ہی خیمہ لگائے بیٹھے ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG