آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ اگر ثابت ہوگیا کہ دھرنے کے پیچھے فوج تھی تو مستعفی ہو جاؤں گا۔ دھرنا ہوا تو میرے ذہن میں لال مسجد کا واقعہ بھی آیا۔ میں نے ڈی جی آئی ایس آئی سے کہا کہ دھرنے والوں سے بات کریں۔ بات ہوئی تو پتا چلا ان کے چار مطالبات ہیں، پھر وہ ایک مطالبہ پر آ گئے۔ سعودی عرب جاتے ہوئے بھی دھرنے سے متعلق معلومات لیتا رہا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ دفاع اور خارجہ کی پالیسیاں بنائے، ہم اس پر عمل درآمد کریں گے۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے سینیٹ کو ملکی اور خطے کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی۔
سینیٹ کی پورے ایوان کی خصوصی کمیٹی کا بند کمرہ خصوصی اجلاس ہوا جو تقریباً 5 گھنٹے تک جاری رہا جس کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ارکان پارلیمان کو قومی سلامتی اور خطے کی صورت حال پر بریفنگ دی۔
یہ اجلاس اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاک فوج کے سربراہ اور ڈی جی ملٹری آپریشنز نے سینیٹ کو بریفنگ دی۔
اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، ڈی جی ایم او جنرل ساحر شمشاد مرزا، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور ڈی جی ایم آئی بھی موجود تھے۔
اجلاس میں پاک فوج کے سربراہ نے سینیٹرز کو علاقائی و قومی سلامتی کی صورت حال، خصوصاً سعودی اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر اعتماد میں لیا۔
بریفنگ کے بعد سوال جواب کا سیشن بھی ہوا جس میں ارکان پارلیمنٹ کے سوالات کے عسکری حکام نے جواب دیے۔ کمیٹی کا اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے تناظر میں بلایا گیا تھا جس کے دوران آئندہ کی حکمت عملی بھی طے کی گئی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں لاپتا افراد، فیض آباد دھرنے اور طالبان وداعش سے متعلق بھی سوالات ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے دھرنے سے متعلق سوال کیا جس کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ اگر ثابت ہوگیا کہ دھرنے کے پیچھے فوج تھی تو مستعفی ہو جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ دھرنا ہوا تو میرے ذہن میں لال مسجد کا واقعہ بھی آیا۔ میں نے ڈی جی آئی ایس آئی سے کہا کہ دھرنے والوں سے بات کریں۔ بات ہوئی تو پتا چلا ان کے چار مطالبات ہیں، پھر وہ ایک مطالبہ پر آ گئے، سعودی عرب جاتے ہوئے بھی دھرنے سے متعلق معلومات لیتا رہا۔
لاپتا افراد کے حوالے سے سوال کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ لاپتا افراد کی مختلف وجوہات ہیں۔ کچھ لوگ خود غائب ہو کر لاپتا ظاہر کرواتے ہیں۔ ایجنسیاں صرف ان افراد کو تفتیش کے لئے تحويل میں لیتی ہیں جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔
ذرائع کے مطابق آرمی چیف جنر ل قمرجاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ 41ملکی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں، اتحاد کے ٹی او آرز ابھی طے ہونا باقی ہیں، ایران اور سعودی عرب کی لڑائی نہیں ہوگی۔
آرمی چیف نے کہا کہ پارلیمنٹ دفاع اورخارجہ پالیسی بنائے، ہم عملدرآمد کریں گے۔ اجلاس میں آرمی چیف بار بار زور دیتے رہے کہ پارلیمنٹ ہی سب کچھ ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ٹی وی پر تبصرہ کرنے والے ریٹائرڈ افسران ہمارے ترجمان نہیں۔جو لوگ ٹی وی پر ہمارے ترجمان بنتے ہیں ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ آپ لوگ پالیسی بنائیں، ہم عمل کریں گے۔ ہم نے دیکھنا ہے، آج کیا ہو رہا ہے، آج کیا کرنے کی ضرورت ہے، ماضی میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آرمی چیف کی بات کے بعد بعض مراحل پر ڈائریکٹرجنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل نوید مختار وضاحت دیتے رہے۔
ذرائع کے مطابق ڈی جی ایم او جنرل ساحر شمشاد مرزا کی جانب سے سینیٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں نے اب تک 274 مقدمات کا فیصلہ کیا۔ 161 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی جن میں سے 56 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔ 13 مجرموں کو آپریشن ردالفساد سے پہلے پھانسی دی گئی اور 43 کو آپریشن کے بعد پھانسی دی گئی۔
اجلاس کے دوران ایک موقع پر سینیٹر یعقوب ناصر کے شور شرابے کی وجہ سے ہال میں بدمزگی پیدا ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے سنیٹر یعقوب ناصر نے دوسرا سوال کرنے کی اجازت نہ ملنے پر شورشرابا کیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے ان سے کہا کہ آپ کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے تو چیئرمین کو بتا دیں یا ہمارے پاس آ جائیں، چیئرمین صاحب جیسے کہیں گے ہم ویسا کر لیں گے۔
سینیٹ کی پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کے اس اہم اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ کی تمام گیلریاں بند کردی گئیں اور پریس لاوٴنج کو بھی تالے لگ گئے، جب کہ میڈیا کے کیمرے بھی اندر لانے پر پابندی رہی۔ سینیٹ کی پوری کمیٹی کا اجلاس ٹرمپ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی پر بلایا گیا تھا۔
پارلیمان پہنچنے پر آرمی چیف کا استقبال ڈپٹی چیئرمین سینٹ عبد الغفور حیدری نے کیا۔ آرمی چیف سیدھے چیئرمین سینیٹ کے چیمبر میں گئے اور رضا ربانی سے ملاقات کی۔ بعدازاں ایوان کی جانب جاتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے گلی دستور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آرمی چیف سے کہا کہ یہ گلی دستور ہے۔ آرمی چیف اس پر سرسری نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے آرمی چیف اور اعلیٰ حکام کو بلانے کی تحریک پیش کی تھی۔