رسائی کے لنکس

آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کون ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

لیفٹینٹ جنرل فیض حمید کا تعلق آرمی کی بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ اپریل 2019 میں انھیں میجر جنرل کے عہدے سے ترقی دے کر لیفٹنٹ جنرل بنایا گیا تھا۔ وہ ماضی میں بھی آئی ایس آئی میں انٹرنل سکیورٹی کے شعبے کے سربراہ رہے ہیں۔

میجر جنرل فیض حمید کا نام اُن دنوں سامنے آیا جب اسلام آباد میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) انتخابی حلف نامے میں ختمِ نبوت کے معاملے پر احتجاج کر رہی تھی۔ نومبر 2017 میں شروع ہونے والا یہ احتجاج کئی دن جاری رہا اور آخر میں اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہونا پڑا۔ احتجاج ختم کروانے کیلئے تحریکِ لبیک اور حکومت کے مابین فوج کی معاونت سے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس پر میجر جنرل فیض حمید کے دستخط موجود تھے۔ نومبر 2017 میں میجر جنرل فیض حمید آئی ایس آئی میں انٹرنل سکیورٹی یونٹ کے سربراہ تھے۔ بعض حلقوں نے اس اقدام پر تنقید کی تھی۔

دفاعی اُمور کے تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ فیض حمید کو بغیر کسی وجہ کے متنازعہ بنایا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فیض حمید نے اُس وقت کے وزیر اعظم کی ہدایت پر دھرنے کے شرکا سے معاہدہ کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ دھرنے والے حکومت سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ پھر وزیراعظم نے آرمی چیف سے کہا کہ آپ بات کروائیں جس کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر آئی ایس آئی نے دھرنہ ختم کروانے کیلئے بات کی۔

یاد رہے کہ فیض آباد دھرنے کے خاتمے کیلئے فوج کے کردار پر اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ فیض آباد دھرنے میں آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر میجر جنرل فیض حمید کیسے دھرنے والوں سے معاہدہ کر سکتے ہیں۔

فیض آباد دھرنے پر جسٹس فائز عیسیٰ کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے پر از خود نوٹس لیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر 2018 کو فیض آباد دھرنے کے فیصلے کو محفوظ کیا تھا جسے فروری 2019 میں جاری کیا گیا۔

پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

لیفٹننٹ جنرل (ریٹائر) امجد شعیب کے مطابق فوج عدالت کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہے کیونکہ عدالت نے فیض حمید کا مؤقف سنے بغیر فیصلہ دیا اور اسی وجہ سے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی سپریم کورٹ کیلئے پیغام

دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اپریل 2019 میں میجر جنرل فیض حمید کو لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔

دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ نے کارروائی کرنے کا حکم دیا لیکن یہ فیصلہ ان کا مؤقف سنے بغیر کیا گیا تھا۔ فوج نے خود تحقیقات کی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ کچھ غلط نہیں کیا گیا اور فیض حمید کو لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔

اُن کے مطابق ’فیض حمید کی پروموشن سپریم کورٹ کیلئے واضح پیغام ہے۔

’تقرری کی ٹائمنگ اہم ہے‘

جہاں سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں زیر سماعت ہیں وہیں سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی سماعت کر رہی ہے۔ اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے اپنے اہلخانہ کے بیرون ملک اثاثے ظاہر نہیں کیے ہیں۔

صحافی و تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ ٹائمنگ کے اعتبار سے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی اس وقت بہت اہم ہے۔ لیکن دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب کے مطابق موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیر نجی مصروفیات کی بنا پر عہدہ چھوڑنا چاہتے تھے اور لیفٹنٹ جنرل فیض حمید سینئر تھے اس لیے انھیں ڈی جی بنایا گیا۔

وجاہت مسعود کے مطابق ’عین اُس وقت جب جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس زیر سماعت ہے، ایسے جنرل کو، جن کا نام فیض آباد دھرنے کے فیصلے میں موجود ہے، اہم ادارے کے سربراہ کے طور پر تعینات کرنا عدلیہ کیلئے ایک پیغام ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

وجاہت مسعود کے مطابق کچھ طاقتور حلقے فیض آباد دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلے سے خوش نہیں تھے۔

تاہم جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا بظاہر فیض آباد دھرنے کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن دارالحکومت اسلام آباد میں یہ تاثر موجود ہے کہ پاکستان کے طاقتور حلقوں کو جسٹس فائز عیسیٰ کے فیض آباد دھرنے سے متعلق فیصلے پر اعتراض ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر وزارتِ دفاع اور پاکستان تحریک انصاف سمیت نظر ثانی کی تقریباً نو درخواستیں زیر سماعت ہیں۔

  • 16x9 Image

    سارہ حسن

    سارہ حسن ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور ان دنوں وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے ان پٹ ایڈیٹر اور کنٹری کوآرڈینیٹر پاکستان کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG