رسائی کے لنکس

ایودھیہ: ہندوؤں , مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد فیصلے سے خوش


ایودھیہ: ہندوؤں , مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد فیصلے سے خوش
ایودھیہ: ہندوؤں , مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد فیصلے سے خوش

تین ججوں پر مشتمل الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بینچ نے ایودھیہ کی بابری مسجد رام جنم مندر کی متنازع اراضی پر ما لکانہ حقوق کے مقدمے میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔

ہندوؤں اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے اِس کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ‘یہ کسی کی جیت یا کسی کی ہار نہیں ہے۔’

بینچ نے 10000صفحات پر مشتمل فیصلے میں دو ججوٕں کی اکثریت کےساتھ متنازع اراضی کو مشترکہ ملکیت قرار دیا ہے، جب کہ یکم اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے والے جسٹس ڈی بی شرما کے مطابق پورا متنازعہ علاقہ رام کا ہے۔

اُدھر، جسٹس ایس یو خان نے کہا کہ یہ مسجد بابر کی جانب سے تعمیر کروائی گئی تھی لیکن مندر کو توڑ کر نہیں البتہ مندر کے ملبے پر بنوائی گئی تھی۔

تاہم، تینوں ججوں نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ مسجد کا جو مرکزی گنبذ تھا اور جِس کے نیچے رام کی مورتی رکھی ہوئی ہے اُسے ہندو مہا سبھا کو دے دیا جائے۔ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ کوئی بھی فریق متنازع اراضی پر اپنے مالکانہ حقوق ثابت نہیں کرسکا ہے۔

22اور23دسمبر 1949ء کی شب میں مسجد کے اندر مورتیاں نصب کردی گئی تھیں اور چھ دسمبر 1992ء کو مسجد منہدم کردی گئی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں متنازعہ مقام کی صورتِ حال کو ‘جوں کا توں ’ برقرار رکھنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ تین مہینے کے اندر فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے۔

فیصلہ آنے کے بعد ہندو مہا سبھا کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے روی شنکر پرساد نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ مندر بنوانے میں تعاون دیں۔اِس فیصلے پر پورے ملک سے ردِ عمل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

بہرحال، ابھی یہ فیصلہ پوری طرح منظرِ عام پر نہیں آیا، اور اِس کے بہت سے نکات پر وضاحت ابھی باقی ہے۔ فیصلہ بند کمرے میں سنایا گیا جہاں صحافیوں سمیت کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔فیصلے کی نقول میڈیا سینٹر میں صحافیوں کو فراہم کی گئیں۔ عدالت نے میڈیا کو ہدایت دی تھی کہ وہ نہ تو فیصلے کی تشریح کرے اور نہ ہی کوئی تبصرہ کرے۔

اِس موقع پر پورے ملک میں ‘ہائی الرٹ’ کردیا گیا تھا اور اُتر پردیش میں ایک لاکھ نوے ہزار پولیس نوجوان تعینات کیے گئے تھے۔ مختلف علاقوں میں احتیاطی قدم اٹھاتے ہوئے بہت سے لوگوں کو حراست میں بھی لے لیا گیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG