رسائی کے لنکس

بڑے پیمانے پر کسی فوجی آپریشن پر غور نہیں ہو رہا؛ 'عزمِ استحکام' پر وزیرِ اعظم آفس کی وضاحت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • قومی سلامتی اور ملکی استحکام کے لیے سب کو مجموعی دانش اور سیاسی اتفاقِ رائے سے شروع کیے گئے مثبت اقدام کی پذیرائی کرنی چاہیے۔ وزیرِ اعظم آفس
  • تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ 'عزمِ استحکام' پر غیر ضروری بحث کو ختم کرنا چاہیے، اعلامیہ
  • 'عزمِ استحکام' میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے پہلے سے جاری کارروائیوں کے علاوہ سیاسی، سفارتی، قانونی اور معلوماتی پہلو شامل ہوں گے، اعلامیہ
  • 'عزمِ استحکام' آپریشن کے ذریعے ملک کی معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے مجموعی طور پر محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا، وزیرِ اعظم آفس
  • ایپکس کمیٹی میں کسی قسم کے آپریشن کا ذکر نہیں تھا، وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا
  • کسی بھی قسم کا آپریشن ملک کو کمزور کرے گا۔ ملک کو مزید کمزور کیوں کیا جا رہا ہے؟، مولانا فضل الرحمٰن

ویب ڈیسک—پاکستان کے وزیرِ اعظم نے اپوزیشن کی تنقید کے بعد آپریشن 'عزمِ استحکام' پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آپریشن کو غلط سمجھا جا رہا ہے اور اس کا موازنہ آپریشن ضربِ عضب یا آپریشن راہِ نجات جیسے مسلح آپریشنز سے کیا جا رہا ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہفتے کو نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس کے دوران انسدادِ دہشت گردی مہم تیز کرنے کے لیے 'عزم استحکام' آپریشن کو ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔

اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور فوجی قیادت سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ اپیکس کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ کسی کو بھی ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

آپریشن عزمِ استحکام کے اعلان کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ فوجی آپریشن مسئلے کا حل نہیں۔ لہٰذا اس معاملے کو پہلے پارلیمان میں لایا جانا چاہیے۔

وزیرِ اعظم آفس سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی اور ملکی استحکام کے لیے سب کو مجموعی دانش اور سیاسی اتفاقِ رائے سے شروع کیے گئے مثبت اقدام کی پذیرائی کرنی چاہیے اور تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر غیر ضروری بحث کو بھی ختم کرنا چاہیے۔

حکومت نے عزمِ استحکام آپریشن کا فیصلہ ایسے موقع پر کیا ہے جب ملک کی سیکیورٹی صورتِ حال 2009-2008 کے مقابلے میں کافی تسلی بخش ہے۔

وزیرِ اعظم آفس نے وضاحت کی ہے کہ گزشتہ مسلح آپریشنز ملک کے نوگو علاقوں میں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ تاہم اس وقت ملک میں ایسے کوئی علاقے نہیں۔ البتہ 'عزمِ استحکام' کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جینس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے۔

اعلامیے کے مطابق 'عزمِ استحکام' میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے پہلے سے جاری کارروائیوں کے علاوہ سیاسی، سفارتی، قانونی اور معلوماتی پہلو شامل ہوں گے۔

وزیرِ اعظم آفس نے وضاحت کی ہے کہ ملک میں دہشت گرد تنظیموں کی منظم کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کو گزشتہ مسلح آپریشنز سے شکست دی جا چکی ہے۔ اس لیے بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو گی۔

اعلامیے کے مطابق "عزم استحکام پاکستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے ایک کثیر جہتی، مختلف سیکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے۔"

اعلامیے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ 'عزمِ استحکام' آپریشن کے ذریعے ملک کی معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے مجموعی طور پر محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا۔

'اپیکس کمیٹی میں کسی آپریشن کی بات نہیں ہوئی'

خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے جن کا کہنا ہے کہ ایپکس کمیٹی میں کسی قسم کے آپریشن کا ذکر نہیں تھا، امن و امان اور انعامات دینےکی بات کی گئی تھی جسے 'عزمِ استحکام' کا نام دیا گیا۔

پیر کو اڈیالہ جیل میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپریشن عزم استحکام سے متعلق فی الحال کوئی چیز واضح نہیں۔

اسی طرح جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے آپریشن 'عزمِ استحکام' کو 'عدم استحکام' آپریشن قرار دیا ہے۔

کوئٹہ میں پیر کو پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ کسی بھی قسم کا آپریشن ملک کو کمزور کرے گا۔ ملک کو مزید کمزور کیوں کیا جا رہا ہے؟

سربراہ جے یو آئی کا مزید کہنا تھا کہ شہباز شریف وزیرِ اعظم نہیں، بس کرسی پر بیٹھے ہیں۔

ان کے بقول جہاں اجلاس میں وردی والا موجود ہوگا فیصلے وردی والا کرے گا، کیا ہم نے پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم جرنیلوں کی غلامی کریں گے؟

XS
SM
MD
LG