آذربائیجان کے وکلائے استغاثہ نےمطالبہ کیا ہے کہ ایوارڈ یافتہ تحقیقاتی صحافی کو نو برس قید کی سزا دی جائے، جب کہ اِن الزامات کے بارے میں خاتون صحافی اور اُن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ’جھوٹ کا پلندہ ہیں‘ اور ’سیاسی بنیادوں پر چلائے جا رہے ہیں‘۔
یہ درخواست جمعے کو دی گئی جس سے ایک ہی روز قبل استغاثہ نے خدیجہ اسماعیلوف کے خلاف دلائل مکمل کیے، جن پر بدعنوانی، ٹیکس چوری اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔
اسماعیلوف امریکی فنڈ سے چلنے والے ’ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی‘ سے وابستہ ہیں، جو آذربائیجان سے بدعنوانی کے بارے میں تفصیلی رپورٹنگ کرتی رہی ہیں۔
دارلحکومت باکو میں ’وائس آف امریکہ‘ کی آذربائیجانی سروس کے نمائندے نے اسماعیلوف کی والدہ، المیرا کے حوالے سے بتایا ہے کہ استغاثہ کی جانب سے پیش کی گئی تمام شہادتیں ’دباؤ کے حربے استعمال کرکے اخذ کی گئی ہیں‘۔
بقول اُن کے، ’میری بچی نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ اُنھوں نے ہمیشہ سچ ہی بولا ہے، اور وہ ایک اچھی بچی ہے‘۔
اسماعیلوف کو دسمبر 2014ء میں گرفتار کیا گیا اور اُن پر اپنے ساتھی، طرال مصطفیٰ کو خودکشی کرنے پر اشتعال میں لانے کا الزام ہے۔ مصطفیٰ یوف نے تب سے اس واقع پر توبہ تائب ہو چکی ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ آذربائیجان کے سکیورٹی اہل کاروں نے اس طرح کا بیان دینے پر اُنھیں مجبور کیا تھا۔
’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے اسماعیلوف اور آذربائیجان میں قید دیگر صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
گذشتہ ہفتے آذربائیجان کی ایک عدالت نے انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن، لیلیٰ یونس کو ساڑھے آٹھ سال کی سزا جب کہ اُن کے علیل شوہر، عارف کو سات برس قید کی سزا سنائی تھی۔ اُن پر معاشی نوعیت کے جرائم کا الزام تھا۔
جمعرات کے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کے ایک گروپ نے یونس خاندان کے خلاف سزا کی مذمت کرتے ہوئے اِنھیں ’ظاہر طور پر سیاسی بنیاد پر دی گئی سزائیں‘ قرار دیا ہے، جب کہ، اُن کا کہنا ہے کہ، الزام عائد کرنے والوں کو آذربائیجان کے آزاد معاشرے کو غلط ضابطوں کا پابند کرنے کا مجرم قرار دیا جائے۔