پاکستان کی ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ٹیم کی رکن عائشہ نسیم کا کہنا ہے کہ "اگر لڑکی ہو کر ثنا میر کرکٹ کھیل سکتی ہیں تو وہ کیوں نہیں؟"
ان خیالات کا اظہار انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران کیا۔
عائشہ نسیم آسٹریلیا کے شہر کینبرا میں 26 فروری کو ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان کے پہلے میچ میں چھکے چوکے مارنے کے لیے پُر عزم ہیں۔
پندرہ سالہ عائشہ نسیم پاکستان کی ویمن ٹیم کے لیے آسٹریلیا میں منعقدہ آئی سی سی ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے پہلی مرتبہ میدان میں اُتر رہی ہیں۔
وہ ٹیم کی سب سے کم عمر کھلاڑی ہیں۔ دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والی عائشہ اپنی جارحانہ بیٹنگ کے سبب ٹیم میں منتخب ہوئیں جس کی پاکستان کو آسٹریلوی پچز پر ضرورت ہے جب کہ ان کی لیگ بریک گگلی بھی مشہور ہے۔
اگرچہ وہ پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں مگر وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں چھ بار اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔
عائشہ کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ وہ اس وقت گورنمنٹ ہائی اسکول فار گرلز میں نویں جماعت میں پڑھتی ہیں۔
عائشہ کو کرکٹ سے متعارف کرانے والے اُن کے بڑے بھائی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ نے بتایا کہ "جب میں پانچ چھ سال کی تھی تو میرے بھائی مجھے باہر کرکٹ کھلانے لے جاتے تھے۔ اسی وقت سے مجھے کرکٹ کا شوق ہوا۔ میں انہی دنوں سے کرکٹ کھیل رہی ہوں۔"
عائشہ کا کہنا ہے کہ ثنا میر ان کی رول ماڈل ہیں۔ نہ صرف وہ اچھی کھلاڑی ہیں بلکہ وہ بطور انسان بھی بہت اچھی ہیں۔
اُن کے بقول، "میں کافی عرصے سے یہی کہتی آئی ہوں کہ اگر ثنا میر کھیل سکتی ہیں تو میں کیوں نہیں؟ میرا مشن تھا عالمی سطح پر آ کر کرکٹ کھیلوں، بالاخر بہت محنت اور جدوجہد کے بعد یہاں تک پہنچی ہوں۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ نے مزید کہا کہ "میرے شہر میں تو لڑکوں پر بھی اتنی پابندیاں ہیں، میں تو پھر لڑکی ہو کر کرکٹ کھیلنا چاہتی تھی جو آسان نہیں تھا۔"
ان کے بقول، خاندان کے علاوہ باقی دیگر رشتہ داروں اور محلے والوں کو یہ اعتراض تھا کہ میں آٹھ نو سال کی عمر تک پہنچنے کے باوجود لڑکوں کے ساتھ کیوں کھیلتی ہوں؟
عائشہ کہتی ہیں کہ یہ میرے ابو کی حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج میں یہاں تک پہنچی ہوں۔
لڑکی ہونے کی وجہ سے کرکٹ کی خواہش رکھنے پر لوگوں کے منفی ردعمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے عائشہ نے کہا "مجھے دکھ تو ہوتا ہے کہ جب میرے محلے اور میرے علاقے کے اپنے ہی لوگ مجھے سپورٹ نہیں کرتے لیکن اب رفتہ رفتہ حالات بدل رہے ہیں۔ اب بھی میں ایبٹ آباد میں کرکٹ کھیلتی ہوں۔ آہستہ آہستہ لوگ اپنی بیٹوں کو اس طرف لا رہے ہیں۔ میرے محلے کی لڑکیاں اب میرے ساتھ کھیلتی ہیں۔"
عائشہ نے ہنستے ہوئے اپنے دیگر مشاغل کے بارے میں کہا کہ مجھے کرکٹ کے علاوہ مارنے پیٹنے کا بہت شوق ہے۔ یعنی مارشل آرٹس کا لیکن کرکٹ کی وجہ سے فی الحال میں اس طرف توجہ نہیں دے پا رہی۔