میانمار کی حزب مخالف کے رہنما آنگ سان سوچی نے اپنے ملک میں اس سال نومبر میں ہونے والے عام انتخابات کی موثر بین الاقوامی نگرانی کا مطالبہ کیا ہے۔
کئی دہائیوں تک ملک پر فوج حکومت کرتی رہی اور 2011ء میں اس کا خاتمہ ہو۔ اس خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
نینشل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی)کے فیس بک کے صفحے پر منگل کو جاری ہونے والے ایک وڈیو پیغام میں ایک طویل عرصے تک جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والی رہنما نے کہا کہ کئی دہائیوں میں پہلی بار منعقد ہونے والے ووٹنگ کے اس عمل میں ہمارے لوگوں کو ایک حقیقی تبدیلی لانے کا موقع ملے گا۔
انگریزی زبان میں اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ "یہ وہ موقع ہے جس کو کھو دینے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا اس بات کا ادارک کرے گی کہ ہماری لیے صاف اور شفاف انتخابات کتنے ضروری ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ان انتخابات کے نتائج کا تمام متعلقہ (حلقے) احترام کریں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ا نتخابات سے قبل، انتخابات کے دوران، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انتخابات کے بعد کیا ہوتا ہے اسکا مشاہدہ کرکے براہ کرم ہماری مدد کریں۔ یہ ایک بہتریں طریقہ ہے جس سے آپ اس ملک میں امن اور ترقی میں تعاون کر سکتے ہیں اور یہ یقینی بنانا جس سے ہمارے لوگوں کہ یہ محسوس ہو کہ ان کی رائے کا احترام کیا گیا ہے"۔
اس سال 8 نومبر کو ہونے والے انتخابات کے لیے سرکاری طور پر مہم منگل سے شروع ہو رہی ہے جس میں پارلیمان کے ارکان کو چنا جائے گا جو بعد میں صدر کو منتخب کریں گے۔
توقع کی جارہی ہے کہ 'این ایل ڈی' جماعت کو ان انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے تاہم آنگ سان سوچی ایک آئینی شق کے تحت صدر بننے کی اہل نہیں ہے کیونکہ ان کے دو بیٹوں کے پاس غیر ملکی شہریت ہے۔
موجود صدر تھین سین جو ایک سابق فوجی جنرل ہیں جنہوں نے کئی اصلاحات متعارف کروائی ہیں، وہ پارلیمان کا رکن بننے کے لیے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے تاہم انہیں صدر کے عہدے کے لیے منتخب ہونے کے لیے نامز د کیا جاسکتا ہے۔
میانمر کے آئین کی رو سے پارلیمان میں فوج کے لیے 25 فیصد سیٹوں کی ضمانت دی گئی ہے جن سے وہ ان آئینی اصلاحات کو روک سکتی ہے جن کی یہ مخالفت کرے گی۔