بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ، جن کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی سے تھا، 93 برس کی عمر میں نئی دہلی میں انتقال کرگئے۔
وہ تین بار بھارت کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔
گردوں کے انفیکشن اور سانس کے عارضے کے باعث، واجپائی کو دو ماہ قبل نئی دہلی کے ’آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسپتال‘ میں داخل کرایا گیا تھا۔ اُن کی حالت تشویش ناک بتائی گئی تھی، جنہیں آخری دنوں کے دوران ’لائف سپورٹ‘ پر رکھا گیا تھا۔
وہ سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے شاعر بھی تھے۔
اُنھوں نے 1988ء میں جوہری بم کا تجربہ کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے باعث ہمسایہ پاکستان میں نیوکلیئر لڑائی سے متعلق تشویش پیدا ہوئی۔ لیکن، بعدازاں واجپائی نے بس کے ذریعے پاکستان کا سفر کیا اور اپنے ہمسائے کے ساتھ امن عمل کے تاریخ ساز دور کا آغاز کیا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹوئٹر پیغام میں واجپائی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’واجپائی جی کی موت سے ایک عہد کا اختتام ہوا‘‘۔
اٹل بہاری واجپائی 25 دسمبر 1924ء کو بھارت کے شہر گوالیار میں پیدا ہوئے تھے۔
سال 1998 اور 1999ء کے دوران، واجپائی نے پاکستان کے ساتھ امن عمل کے حصول کے لیے باضابطہ بڑی سطحی سفارتی کوششیں شروع کیں۔ اس دوران، لاہور میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی تاریخی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔
فروری 1999ء میں نئے امن عمل کے آغاز پر، دہلی۔لاہور بس سروس شروع ہوئی۔
امن عمل کا مقصد کشمیر تنازعے اور پاکستان کے ساتھ دیگر تنازعات کا مستقل حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنا تھا۔
’اعلان لاہور‘ میں باہمی مسائل کے حل کے لیے ’مکالمے‘ کا راستہ اپنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا؛ جب کہ دونوں ملکوں نے جنوبی ایشیا کو جوہری اسلحے کی دوڑ سے پاک کرنے کے ہدف کا اعادہ کیا؛ اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے اور باہمی دوستی کے حصول کو اہم ہدف قرار دیا۔
ماہرین کے مطابق، اعلان لاہور کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مابین 1998 کے جوہری تجربات کے بعد پیدا ہونے والے تناؤ میں کمی آئی۔
بعد ازاں، بھارت و پاکستان کے مابین کارگل کی لڑائی ہوئی؛ جب کہ 13 دسمبر 2001ء کو نئی دہلی میں پارلیمان کی عمارت پر حملے کا واقعہ ہوا۔
دسمبر 2005ء میں واجپائی نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی۔