امریکی خلاباز ڈگلس ہرلی اور باب بینکن سپیس ایکس کے فالکن 9 راکٹ کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچ گئے ہیں۔
فلوریڈا میں قائم ناسا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے پرواز کے چند ہی منٹوں کے بعد دونوں خلاباز زمین کے مدار میں داخل ہو گئے تھے، تاہم بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے جڑنے کے لیے انہیں 19 گھنٹے اپنے کیپسول میں ہی گزارنے پڑے۔
ہرلی کی عمر 53 سال اور بینکن 49 سال کے ہیں۔ وہ امریکی فوج میں پائلٹ کی خدمات سرانجام دے چکے ہیں، جس کے بعد انہوں نے سن 2000 میں خلائی ادارے ناسا میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
وہ ہفتے کی سہ پہر تین بجکر 22 منٹ پر خلائی جہاز میں روانہ ہوئے تھے۔
لگ بھگ ایک عشرے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی خلاباز اپنی ہی سرزمین سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن گئے ہیں۔
سن 2011 میں ناسا کی طرف سے خلا میں راکٹ بھیجنے کا پروگرام ختم کیے جانے کے بعد امریکی سائنس دان بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک آمد و رفت کے لیے روس کے راکٹ استعمال کر رہے تھے۔
ناسا نے خلائی راکٹوں کا اپنا پروگرام ترک کر کے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی تاکہ وہ اس شعبے میں آگے آئیں۔ اس کا مقصد اخراجات کی کفایت اور مستقبل کے تقاضوں اور ضرورتوں کو پورا کرنا تھا۔ اس وقت دو امریکی پرائیویٹ کمپنیاں اسپیس ایکس اور بوئنگ خلائی شعبے میں اپنے قدم جما رہی ہیں۔
اسپیس ایکس خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن لے جانے اور وہاں سے واپس لانے کے لیے کچھ عرصے سے تجربات کر رہا تھا۔ جن کی کامیابی کے بعد ہفتے کے روز پہلی بار خلاباز اسپیس ایکس کے راکٹ فالکن 9 میں رکھے گئے کیپسول میں سوار ہوئے اور کامیابی کے ساتھ بحفاظت زمین سے لگ بھگ 400 کلومیٹر کے فاصلے پر گردش کرنے والی بین الاقوامی خلائی تجربہ گاہ پہنچ گئے۔
روانگی کے موقع پر خلائی مشن کے کمانڈر ہرلی نے یہ الفاظ کہے تھے، آیئے ہم یہ مشعل روشن کریں۔ یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو 1961 میں خلا میں جانے والے پہلے انسان ایلن شپیرڈ نے ادا کیے تھے۔
اسپیس ایکس کمپنی کی بنیاد ارب پتی ایلان مسک نے رکھی ہے۔ اس کامیابی پر ان کا کہنا تھا کہ میں نے بمشکل اپنے جذبات پر قابو پایا ہے۔ میں اس خواب کی تکمیل کے لیے گزشتہ 18 برسوں سے کام کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی، مریخ پر انسانی آبادکاری کی جانب پہلے قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔
امریکہ کے صدر ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پینس، خلابازوں کی ایک پرائیویٹ راکٹ پر روانگی کے موقع پر فلوریڈا کے کینیڈی سینٹر گئے تھے۔ ناسا کے مطابق 30 لاکھ سے زیادہ افراد نے یہ منظر آن لائن دیکھا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ۔' میں ناسا میں لوگوں کو مل کر کام کرتے ہوئے دیکھ کر بہت فخر محسوس کر رہا ہوں۔ یہاں سرکاری شعبہ بھی ہے اور پرائیویٹ بھی۔ اس طرح کا منظر دیکھ کر آپ کو ناقابل بیان حیرت اور خوشی ہوتی ہے۔
ہفتے کے روز خلابازوں کی روانگی سے قبل، موسم کی خرابی کے باعث پرواز متعدد بار ملتوی کی گئی تھی۔