بھارت کی ریاست آسام کے تقریباً 20 لاکھ افراد کو 'غیر بھارتی' قرار دیتے ہوئے ان کی شہریت منسوخ کردی ہے جبکہ ان کے نام بھی بھارتی شہریت رکھنے والے افراد کی فہرست سے نکال دیے گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی ایک رپورٹ کے مطابق ان افراد کی شہریت کی جانچ پڑتال کا کام پچھلے ایک برس سے جاری تھا۔
ناقدین الزام عائد کر رہے ہیں کہ اس اقدام کا مقصد مسلمانوں کو ہدف بنانا ہے۔
ریاستی حکومت نے احتجاج کے پیش نظر آسام میں سکیورٹی سخت کرکے دفعہ 144 نافذ کردی ہے جبکہ مرکزی حکومت نے پولیس فورس کی 51 کمپنیاں تعیناتی کی غرض سے آسام روانہ کی ہیں۔
آسام میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف شکایات سامنے آ رہی تھیں۔ مرکزی و ریاستی حکومت نے تارکین وطن کی ملک بدری کی غرض سے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ بنگلہ دیش کے ساتھ سرحدی اضلاع میں 20 فیصد جبکہ دیگر اضلاع میں 10 فیصد غیر قانونی تارکین وطن مقیم ہیں لہذا ان کی شہریت کی دوبارہ تصدیق کی اجازت دی جائے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ جولائی میں حکومتی درخواست خارج کر دی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ہی قانونی مسودے میں تبدیلیاں کی گئیں اور آج یعنی 31 اگست کو حتمی فہرستیں جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔
آسام کے آبائی رہائشیوں کا الزام ہے کہ یہ افراد بہتر روزگار کی غرض سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آئے تھے۔
بھارتی حکام نے پچھلے سال غیر قانونی تارکین وطن کی جانچ پڑتال کے لیے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) جاری کیا تھا جس کے تحت تین کروڑ 30 افراد کے دستاویزات کی جانچ پڑتال کی گئی۔
ریاست کے رجسٹر کوآرڈینیٹر پرتیک حاجیلا نے کہا ہے کہ حتمی فہرست میں اب تین کروڑ 10 لاکھ افراد شامل ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ 19 لاکھ سے زائد افراد کی شہریت منسوخ کردی گئی ہے۔
شہریت منسوخ ہونے والے افراد کو ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے اور کیس کی شنوائی کے لیے 120 دن کا وقت دیا گیا ہے۔ ان افراد کو ٹریبونل کے بعد اعلیٰ عدالت سے بھی رجوع کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق ناقدین نے الزام لگایا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کرکے اپنے جذبات کو سکون پہنچا رہی ہے۔ وہ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے اس قانونی مسودے کا غلط استعمال کررہی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کچھ عرصہ پہلے غیر قانونی تارکین وطن ملک بدر کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔
امیت شاہ نے ان افراد کو دیمک قراردیا تھا۔
آسام کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ آخرکار ان غیرملکیوں کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ ان افراد کی شہریت کے بارے میں ساری باتیں سنی سنائی ہیں بنگلہ دیش نے انہیں قبول کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔
آسام کے غیرقانونی تارکین وطن کے لیے قائم چھ حراستی مراکز میں ایک ہزار سے زیادہ افراد زیرحراست ہیں جبکہ ریاستی حکومت نے مزید مراکز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن ان حراستی مراکز کی موجودہ صورت حال کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ وکلا و کارکنوں نے غیر ملکیوں کو ٹریبونلز میں پیش آنے والے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔
آسام میں 1985 میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کی قیادت میں 'آسام تحریک' چلائی گئی تھی جس کا اختتام ایک معاہدے پر ہوا۔
اس معاہدے کے تحت 25 مارچ 1971 کے بعد ریاست میں آئے لوگوں کو غیر ملکی تسلیم کیا جائےگا اور واپس ان کے ملک بھیج دیا جائے گا ۔ اسی بنیاد پر این آر سی تیار کی گئی تھی۔