لیجئے گیارہ ستمبر پھر آگیا۔ پچھلے نو سال سے جس تلخی اور المناک انداز میں یہ دن یاد رکھا جاتا ہے وہ اپنے آپ میں کسی ریکارڈ سے کم نہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، فلم، اخبارات، انٹرنیٹ ، رسائل، جرائد ، دستاویزات۔ جدھر دیکھئے نائن الیون کی یادیں بکھری پڑی ہیں۔ جن لوگوں کو اپنی سالگرہ یاد نہیں وہ بھی اس تاریخ کو نہیں بھولتے۔ پھر اس بار تو نائن الیون کی مناسبت سے فلوریڈا میں قرانی نسخے نذرآتش کرنے کے منصوبے نے اس دن کو مزید نمایاں کردیا ۔ مبصرین کے نزدیک گیارہ ستمبر کا واقعہ ہر سال دنیا میں قیام امن کے لئے نئے سرے سے نئی سوچ کا تقاضہ کرتا ہے۔
پاکستان میں نائن الیون کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر اب بھی الگ الگ آراء رکھتے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ نائن الیون کا واقعہ افسوسناک تھا ، ایسے واقعات کے ذمے دار مخصوص سوچ رکھنے والے افراد ہیں ،عام لوگوں کا کوئی قصور نہیں جبکہ بعض افراد کہتے ہیں کہ اگر دنیا کے چند بڑے مسئلے حل ہوجائیں تودہشت گردی خود بخود ختم ہوجائے گی۔
نہال قوی خان پاکستان کےایک نیم سرکاری ادارے میں کام کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کو دہشت گردی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لئے سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔ سب سے پہلے ان عوامل پر غور کرنا ہوگا جو دہشت گردی کی بنیاد بنے۔ میرے خیال میں دہشت گرد فرسٹیشن یا مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کی مایوسی اگر خوشیوں میں بدل دی جائے تو شاید اس مسئلہ کا حل ممکن ہو ۔ دنیا بھر کی بڑی قوتوں کوان ممالک کے مسائل پر توجہ دینے کی ضروررت ہے جہاں کی عوام کسی نہ کسی وجہ سے مایوسی کا شکار ہے یا جس ملک کے نوجوان دہشت گردی جیسی سنگین وارداتوں میں شریک ہوبیٹھتے ہیں۔ اگر ان وجوہات کو ہی ختم کردیا جائے جو دہشت گردی پر اکسائے تو دہشت گرد پیدا ہی نہ ہوں۔
کراچی کی ایک باپردہ خاتون راحیلہ ا فروز کہتی ہیں: عالمی سطح پر بڑے ممالک کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ دنیا میں قیام امن کے لئے ناجائز اسلحہ ترک کرنا پڑے گا۔ اسلحہ بناکر امن کی توقع بے سود ہے۔پاکستان میں دہشت گردی ختم کرنے کے لئے ناجائز اسلحہ پر نہایت سخت پابندی کا قانون ضروری ہے۔ چھوٹے ہتھیاروں کی دستیابی ایک طرف تو ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کررہی ہے تو دوسری جانب چھوٹے ہتھیاروں کی دستیابی بڑے اور خطرناک ترین اسلحے کی راہ ہموار کررہی ہے۔ لہذا سب سے پہلے اسلحے پر پابندی لگائی جائے۔ آج دھماکا خیز مواد آسانی سے دہشت گردوں کی دسترس میں ہے اس لئے وہ دھماکے بھی کررہے اور خودکش حملہ آوروں کو بھی پیدا کررہے ہیں۔پشاور سے کراچی تک ناجائز اسلحہ پھیلا ہوا ہے، اس کی خریدو فروخت پر کوئی پابندی نہیں۔ پاکستان میں ایسا بھی کوئی قانون نہیں جو خطرناک کیمیکلز یا ایسے کیمیکلز جو دھماکا کرنے اور گولہ بارود بنانے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں ان کی خرید و فروخت میں رکاوٹ بن سکے۔ اگر ہے تو اس پر عمل درآمد کرنے پر زور دیا جاناچاہئے اور اگر نہیں ہے تو بنانا چاہئے۔ نہایت سخت۔ جہاں انسداددہشت گردی کے لئے اتنا کچھ کیا جارہا ہے وہاں سخت قانون بھی ضرور بننا چاہئے۔ تبھی دہشت گردوں کے ہاتھ کاٹے جاسکیں گے۔
عبدالرحمن دمامی،دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی خاصا گہرا شغف رکھتے ہیں۔ ان کے پاس دینی تعلیم کی بھی کئی ڈگریاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں: پاکستان میں وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی رائے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اس واقعے کے ابتدائی دنوں میں عام لوگ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ واقعے میں اسامہ بن لادن یا اس کے ہم خیال لوگ شامل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت لوگ باقاعدہ بحث کرتے تھے ۔کچھ کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ دانستہ پیداکردہ ہے جبکہ کچھ لوگ کہتے تھے کہ واقعہ تو حقیقی ہے مگر اس کا الزام مذہبی انتہا پسندوں پر لگانا کسی طور انصاف نہیں۔ واقعے کی مکمل طور پر تحقیقات ہونی چاہئے اس کے بعد جو لوگ واقعے کے قصور وار ہوں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب اچھے خاصے پاکستانیوں کی رائے ہے کہ واقعے میں القاعدہ ہی ملوث ہوسکتی ہے۔
اس واقعے کے عام زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے، اس سوال کے جواب میں ساوٴتھ افریقہ سے کراچی شفٹ ہونے والے تاجر نعیم پرویز کا کہنا ہے : جن دنوں یہ واقعہ ہوا تھا میں لندن میں تھا۔ وہاں اور کچھ یورپی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف لہر اٹھی اور ان پر حملوں کی کچھ اطلاعات بھی موصول ہوئیں مگر پھر رفتہ رفتہ سب نارمل ہوگیا۔ تاہم اتنا نارمل ابھی بھی نہیں ہوا جتنا ہونا چاہئے تھا۔ مثلاً اس واقعے کے بعد تمام مسلمانوں کو انتہاپسند تصور کرلیا گیا حالانکہ تمام لوگ کبھی بھی ایک جیسی سوچ کے حامل نہیں ہوسکتے۔ہوسکتا ہے مخصوص سوچ رکھنے والے کچھ لوگوں کے ہاتھوں یہ حادثہ انجام پایا ہو مگر ایک کے کئے کی سزا سب کو ملے ، یہ غلط ہے۔
میاں محمد زاہد کا تعلق بہاولپور سے ہے مگر وہ ایک عرصے سے کراچی میں تجارت کررہے ہیں۔ وہ آئے دن تجارت کی غرض سے بیرون ملک سفر کرتے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ" ہوائی سفر کی ہی مثال لے لیجئے۔ اب غیر ملکی سفر اتنا آسان اور اطمینان بخش نہیں رہا جتنا پہلے تھا ۔ سیکورٹی تو سخت ہے ہی ، شخصی چیکنگ کا جو حال ہے اس حوالے سے بھی آپ کو پتہ ہی ہوگا، ائیرپورٹس پر ا سکینرمشینیں لگادی گئی ہیں کچھ اسے غلط اور کچھ وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں مگر اس سے فرق تو پڑا ہے۔ اب ملکوں ملکوں سفر آسان رہا مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
اسی سوال پرکراچی یونیورسٹی کی طلبہ شازیہ شاہد کا کہنا ہے : اس واقعہ کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ پڑوسی ملک میں بننے والی فلموں میں جتنے قانون شکن ، دہشت گرد اور بدمعاش دکھائے جاتے ہیں انہیں مسلمان ظاہر کیا جاتا ہے۔ انہیں ملک دشمن ، غدار یا دیش دروہی کہا جاتا ہے حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ وہاں کا مسلمان اتنا ہی محب وطن ہے جتنا دوسرے مذہب کے ماننے والے۔ میں کہتی ہوں کہ نائن الیون کے واقعے سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو جھوڑنا یا انہیں انتہا پسند کہناکسی طور مناسب نہیں ۔
حالات پرگہری نظر رکھنے والے ایک صحافی نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا: نائن الیون کے واقعے نے پوری دنیا کو بدل کر رکھا دیا ہے۔ افغان جنگ اور اس کے بعد عراق جنگ کی بنیاد بھی دیکھا جائے تو یہی واقعہ بنا۔ ان جنگوں میں جو بھاری بھاری رقمیں خرچ کیں اگر انہیں دنیا بھر کو درپیش بڑے مسائل پر خرچ کیا جاتا تو شائد آج دنیا کے کئی مسئلے حل ہوگئے ہوتے اور شاید دنیا زیادہ پر امن ہوتی جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ آج چھوٹے بڑے ہر ملک کو دفاعی اخراجات بڑھانے پڑرہے ہیں۔
ایک اور مبصرنسیم اختر کا کہناہے کہ جس طرح ہم ہر عالمی دن پرہر سال ایک نئے سلوگن کے تحت کام کے منصوبے بناتے ہیں اسی طرح اس سال گیارہ ستمبر کے حوالے سے بھی ہمیں ایک سلوگن ترتیب دینا پڑے گا کیوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم دہشت گردی کی وجوہات کو ختم کرنے کے لئے نئے سر ے سے سوچیں ۔میرے خیال میں اس سال کا سلوگن ہونا چاہئے: قیام امن کے لئے نئی سوچ کی ضرورت ۔ اس عنوان کے تحت اس سال سے اگلے گیارہ ستمبر تک بین المذاہب مکالمہ، کانفرنس، سیمینارز اور ڈیبیٹ ہوتی رہنی چاہئیں اور ماہرین کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے عام لوگوں کو بھی اس میں شریک کیا جانا چاہئے تاکہ نئی سوچوں کو عروج ملے اور دنیا اگلے گیارہ ستمبر تک دہشت گردی سے کسی حدتک ہی سہی پاک ہوجائے۔