پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ صاف پانی سے محروم ہے۔
یہ بات پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میںملک میں دستیاب پینے کے پانی کے معیار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی۔
انہوں نے پانی سے متعلق سرکاری ادارے’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ سندھ اور پنجاب کے بعض علاقوں سے حاصل کردہ پانی کے بعض نمونوں میں مضر صحت آرسینک دھات کی آمیزش بھی پائی گئی ہے۔
پاکستان کونسل ان واٹر ریسرچ کی ایک اعلیٰ عہدیدار لبنیٰ ناہید بخاری نے وائس آف امریکہ سے اس رپورٹ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملک میں صاف پانی فراہم کرنے والی اسکیموں کی پانی کے معیار کا جائزہ لیا ہے اور ان کے بقول ان میں سے زیادہ تر کا پانی مضر صحت ہے ۔
" ویسے تو ملک میں 14 ہزار پانی کی اسکیمیں ہیں ان میں سے ہم نے 10 ہزار کے پانی کے معیار کا سروے کیا ہے اور اس میں ہم نے دیکھا ہے ان میں سے 72 فیصد کام کر رہی اور ان میں سے 84 فیصد کا پانی آلودہ ہے اور پینے کے قابل نہیں ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ سیوریج اور پانی کی صاف پائپ لائنوں کا جڑ جانا ہے۔
" یہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہے اور ان کی مناسب مرمت اور کلورین کی استعمال سے حل کیا جاسکتا ہے۔"
لبنیٰ ناہید نے کہا کہ اگرچہ یہ معاملہ نہایت گمبھیر ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ماضی کی نسبت اب حکومت اس کی طرف زیادہ توجہ دی رہے ہی۔
دوسری طرف صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی کئی طرح کے صحت کے مسائل کا بھی سبب بن رہا ہے۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر وسیم خواجہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "آلودہ پانی ہیضہ، ٹائیفائیڈ، پولیو اس کے علاوہ جگر کی سوزش کا سبب بن رہا ہے ۔۔۔۔اس کا ایک ہی حل ہے کہ پانی کو ابال کر پیا جائے تو آپ ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔"
ڈاکٹر وسیم نے کہا کہ اس بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ آلودہ پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل سے آگاہ ہو کر ان کا تدارک کر سکیں۔