امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے پر غور کرنے کے لیے عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس ہفتے کو طلب کیا گیا ہے جس کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ جمعے کو قاہرہ پہنچ رہے ہیں۔
خیال ہے کہ مہمان وزرائے خارجہ فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس پر زور ڈالیں گے کہ وہ صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے ساتھ بات کریں جبکہ محمود عباس عرب ملکوں سے کہیں گے کہ وہ اس منصوبے کے خلاف متحد ہوں۔
صدر ٹرمپ کے منصوبے کے ناقدین کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کا فلسطینی علاقوں پر کنٹرول اور یہودی بستیوں پر مستقل قبضہ نام نہاد اور غیر پائیدار ریاست کو جنم دے گا جس سے فلسطینی سرزمین مزید بٹ جائے گی۔
عرب ملکوں کے اتحاد کی قیادت کرنے والا سعودی عرب فلسطینیوں پر زور دے گا کہ وہ امریکی منصوبے کا ساتھ دے۔ سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے وزارت خارجہ کا بیان شائع کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’مملکت صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی کوششوں کی معترف ہے جس میں فلسطینی اور اسرائیلی فریقین کے درمیان مربوط امن منصوبہ طے کرنے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔‘‘
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت اسرائیلی قبضہ ختم کرانے کے لیے فلسطینی مزاحمت کا ساتھ دینے سے تنگ آچکی ہے اور اس سوچ سے یقینی طور پر اختلاف کرتی ہے کہ اسرائیل کو 1948ء کی سطح پر واپس لایا جاسکتا ہے۔
سرکاری سعودی بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’منصوبے سے کسی نااتفاقی کو امریکہ کے توسط سے ہونے والے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے تاکہ امن عمل کو آگے بڑھا کر سمجھوتے تک پہنچا جائے اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق حاصل کیے جاسکیں۔‘‘
سعودی حکام صدر ٹرمپ کو ایسا شخص قرار دیتے ہیں جو اپنے الفاظ کی پاسداری کرتا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مذاکرات کی میز پر جو کچھ بھی ہے، فلسطینیوں کو چاہیے کہ اس پر بات چیت آگے بڑھائیں تاکہ وہ اپنی باقی ماندہ سرزمین پر اپنے دعوؤں کا تحفظ کرسکیں۔
مشعری الدیدی سعودی روزنامہ ’شرق الاوسط‘ کے کالم نگار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں ان ارادوں کو پوشیدہ نہیں رکھا، جن کا سابق امریکی صدور ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے، جیسا کہ امریکی سفارت خانہ مغربی یروشلم منتقل کرنے کا معاملہ۔‘‘
’’انھوں نے فلسطینی یا عرب اسرائیل تنازع سے متعلق اپنی جانب سے بڑا اور مربوط انداز اپنانے کا وعدہ کیا اور اسے پورا کیا۔‘‘
الدیدی نے امکان ظاہر کیا کہ ایران اور قطر کے اشارے اور اخوان المسلمون کی ایما پر عراقی اور لبنانی وفود کی جانب سے منصوبے پر شدید اعتراضات اٹھائے جائیں گے۔