امریکہ کے مختلف شہروں میں شریعت مخالف اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک پر علیحدہ علیحدہ مظاہرے ہوئے۔
"شریعت مخالف" مظاہرے 'اے سی ٹی فار امریکہ' نامی گروپ نے منظم کیے تھے جو کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات سے ہم آہنگ تنظیم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ آزادی رائے اور روایتی امریکی اقدار کا تحفظ کرتی ہے۔
منافرت پر مبنی گروپوں پر نظر رکھنے والے 'دی سدرن پاورٹی لا سنٹر' کا کہنا ہے کہ 'اے سی ٹی' ملک کا سب سے بڑا مسلم مخالف گروپ ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اے سی ٹی کے تقریباً تین درجن مظاہرین نیویارک شہر میں جمع ہوئے اور انھوں نے امریکی پرچم اٹھا رکھے تھے۔
شریعت مخالف مظاہرین میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو ٹرمپ کے حامی ہیں اور خود کو "عہد کے پاسبان" کہلواتے ہیں جب کہ دیگر افراد میں سفید قوم پرست تحریک سے وابستہ لوگ شامل تھے۔
اس مظاہرے سے کچھ ہی فاصلے پر چند سو افراد جمع ہوئے جنہوں نے "فسطائیو نیویارک شہر سے نکل جاو" کے بینر اٹھا رکھے تھے۔
پولیس نے کسی بھی طرح کے تصادم کو روکنے کے لیے مخالف گروپوں کے درمیان رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔
ایسے ہی متضاد مظاہرے کیلیفورنیا، ٹیکساس شکاگو اور پنسلوینیا میں 20 سے زائد مختلف شہروں میں دیکھنے میں آئے۔
سان برنارڈینو میں اے سی ٹی کے ایک مظاہرے میں شریک ایک شخص نے مقامی ٹی وی کے رپورٹر کو بتایا کہ "یہاں انتہا پسند موجود ہیں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے مخالف ہیں۔ جی نہیں، مسلمان دوسرے مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں اور ہم ان پناہ گزینوں کو پناہ دے رہے ہیں جو ایک ہی جیسے نظریے کے پیروکار ہیں۔"
مظاہروں میں کسی طرح کے تشدد کی اطلاع تو موصول نہیں ہوئی۔
سان برنارڈینو پولیس کی ترجمان ایلین ہارڈز نے ایک نامہ نگار کو بتایا کہ "ٹرمپ مخالف، ٹرمپ کے حامی، انتہا پسندوں کے مخالف، مختلف طرح کے پیغامات دیے جا رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں اتنے مختلف انداز کے پیغامات ہیں کہ یہ واضح نہیں ہو رہا کہ کون کیا ہے۔"