رسائی کے لنکس

سندھ میں طلباء وطالبات کے لئے لازمی ڈرگ ٹیسٹ کا قانون


کراچی: ایک نوجوان نذیر جان منشیات استعمال کرتے ہوئے۔ (فائل)
کراچی: ایک نوجوان نذیر جان منشیات استعمال کرتے ہوئے۔ (فائل)

پاکستان میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی روک تھام کے لئے سندھ کی صوبائی حکومت نے تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کے لئے ڈرگ ٹیسٹ لازمی قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں باضابطہ قانون سازی کا اعلان بھی کیا گیا ہے تاہم ماہرین نے حکومت کے ان اقدامات کو ناکافی قراردیتے ہوئے موجودہ سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لئے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

سنہ دو ہزار تیرہ کی یو این رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 67 لاکھ تک پہنچ چکی تھی جس میں سالانہ 7 فیصد کے تناسب سے اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کے صوبے سندھ میں انتظامیہ نے محسوس کیا ہے کہ یہ وباء تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جس کی وجہ سے انھوں نے طلبہ و طالبات کی اسکریننگ کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعلی سندھ کے مشیر اطلاعات رشید چنہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ اقدام بڑی سوچ و بچار کے بعد اٹھایا ہے۔ بقول ان کے ’’ہمارے پاس معروف یونیورسٹیز سے اس قسم کی خبر آئی اور تحقیقات سے بھی ظاہر ہوا کہ ڈرگ مافیا نے ان تعلیمی اداروں میں اپنے لوگ لگادئے ہیں اور طلباء وطالبات کو با آسانی منشیات فراہم کی جارہی ہیں۔ حکومت نے صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے حکومت سندھ نے فیصلہ کیا کہ طلباء کی اسکرینگ کی جائے۔ مسئلہ تھا والدین کا کہ وہ اعتراض کرسکتے ہیں اس لئے ایک شعور بیدار کرنے کی مہم بھی ساتھ میں چلائی جائے گی۔

اس سلسلے میں سندھ حکومت باضابطہ قانون سازی بھی کررہی ہے۔ رشید چنہ کے مطابق’’ ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو تمام صورتحال کا جائزہ لے کر قانون مرتب کرے گی جو باضابطہ سندھ اسمبلی سے منظور کرایا جائے گا اور یہ لازمی ہوگا کہ ہر طالب علم تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے سے قبل اور سال میں ایک بار ڈرگ ٹیسٹ کرائے۔

حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت کے ان اقدامات کا مقصد صرف صوبے میں بڑھتے ہوئے منشیات کے استعمال کی روک تھام ہے۔

منشیات کے عادی افراد کی مدد کے لئے کمربستہ انٹی نارکوٹیکس ویلفیئر آرگنائزیشن کے صدر ڈاکٹر طارق خان کہتے ہیں کہ ملک میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن صورتحال کی سنگینی کا کسی کو احساس نہیں ان کا کہنا ہے کہ لازمی ڈرگ ٹیسٹ مسئلے کا حل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ملک میں ستر لاکھ سے زائد منشیات کے عادی جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جن میں سالانہ سات فیصد اضافہ ہورہا ہے انہیں منشیات آسانی سے دستیاب ہیں آپ صرف ایک ٹیلی فون کریں آپ کو ہیروئین بھرا سیگریٹ کا پیکٹ آپ کے گھر پر فراہم کردیا جائے گا۔ یہ وباء تعلیمی اداروں میں جڑ پکڑ چکی ہے نوجوان لڑکیاں تک اس میں شامل ہوگئی ہیں۔

طارق خان کا کہنا ہے کہ منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال ملک میں جرائم کی شرح میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ بقول ڈاکٹر طارق ’’جرائم میں اضافے کی بنیاد منشیات ہے، جرائم میں زیادہ تر منشیات کے عادی لوگ ملوث ہیں جو نشے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ڈاکہ ڈالتے ہیں اور چند رپوں کی خاطر کسی کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ‘‘

پاکستان میں منشیات کا بڑا حصہ افغانستان سے اتا ہے۔ جو افیون کی پیدوار کے لیے دنیا میں سب سے بڑا مرکز ہے۔ حال ہی میں افغانستان کی تعمیر نو کے لئے تعینات امریکی انسپکٹر جنرل کی کانگریس کو پیش کردہ ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکہ نے اس ملک میں افیون کی پیدوار کے خلاف 8 ارب 70 کروڑ ڈالر خرچ کئے لیکن صرف گزشتہ برس کے دوران یہاں افیون کی پیدوار میں 87 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ افیون ہیروین کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے اور جو امریکہ سمیت دنیا بھر میں فروخت کی جاتی ہے اور پاکستان اس کی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے اس کی زد میں ہے۔

XS
SM
MD
LG