بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں فوج اور دیگر حفاظتی دستوں نے وادی میں عسکریت پسندوں کے خلاف سخت گیر عسکری مہم تیز کر دی ہے۔
سرکاری عہدیداروں کے مطابق مقامی پولیس کا شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) اس کارروائی میں پیش پیش ہے۔ ایس او جی کے وادی میں کیے گئے درجنوں آپریشنز کے دوران رواں سال اب تک 80 کے قریب مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے جب کہ ان کے 30 سے زائد ساتھیوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ان عسکریت پسندوں سے اسلحہ اور بارودی مواد بھی بھاری مقدار میں ضبط کیا گیا ہے۔
جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ ہلاک کیے گیے دہشت گردوں میں حزب المجاہدین، لشکر طیبہ اور جیش محمد کے کئی کمانڈر اور اہم اراکین بھی شامل ہیں۔
رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں جموں و کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے بیگ پورہ علاقے میں کیے گیے آپریشن کے دوران حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر ریاض احمد نائیکو عرف محمد بن قاسم اپنے ایک قریبی ساتھی کے ساتھ ہلاک ہوئے۔
بیگ پورہ ریاض نائیکو کا آبائی علاقہ ہے اور وہ حزب المجاہدین کے معروف کمانڈر برہان مظفر وانی کے قریبی ساتھی تھے۔ حکومت نےاُن کے سر پر 12 لاکھ روپے کا انعام مقرر کیا تھا۔
بھارت کی وزارت داخلہ نے پچھلے سال جون میں نائیکو کو دس مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت مخالف سیکیورٹی اداروں کے سامنے انہیں اور دوسرے مطلوب عسکریت پسندوں کو جلد از جلد ختم کرنے کا اولین کام رکھا تھا۔
رواں ماہ 19 مئی کو جموں و کشمیر کے گرمائی صدر مقام سری نگر میں عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں حزب المجاہدین کے ڈویژنل کمانڈر جنید اشرف خان اور تنظیم کے ایک اور اہم رکن طارق احمد شیخ ہلاک ہوئے تھے۔
بھارتی حفاظتی دستوں کے افسران نے ان ہلاکتوں کو عسکریت پسندوں کے خلاف جاری جنگ میں اہم کامیابیاں قرار دیا ہے۔
ان کارروائیوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان حزب المجاہدین کو اٹھانا پڑا ہے۔ جو جموں و کشمیر میں سرگرم ایک بڑی مقامی عسکری تنظیم ہے۔
حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین نے گزشتہ دنوں یہ اعتراف کیا تھا کہ اس وقت کشمیر میں جاری شورش میں بھارتی سرکاری دستوں کا پلڑا بھاری ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے جنگجوؤں نے شکست مانی ہے اور نہ مانیں گے۔ بلکہ قابض افواج کے خلاف ان کی کارروائیاں نہ صرف جاری رہیں گی بلکہ ان میں تیزی لائی جائے گی۔
رواں سال 30 سیکیورٹی اہلکار ہو چکے ہیں
دوسری طرف عسکریت پسندوں کی جوابی کارروائیوں میں رواں سال اب تک بھارتی فوج، دوسرے سرکاری دستوں اور مقامی پولیس کے 30 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
تین افسران سمیت تقریباً ایک درجن اہلکار گزشتہ چار ہفتوں کے دوران ہلاک ہوئے۔
ریاض نائیکو اور جنید اشرف کی ہلاکت کے بعد مشتبہ عسکریت پسندوں نے سری نگر اور پلوامہ میں اچانک اور چھپ کر کیے گئے حملوں میں بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے ‘بی ایس ایف’ اور ‘انڈین ریزرو پولیس فورس’ کے تین اہلکاروں کو ہلاک جب کہ ایک کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
ان جھڑپوں کے دوران 17 عام شہری بھی ہلاک ہوئے تھے۔
عسکریت پسندوں اور سرکاری دستوں کے درمیان ہونے والی حالیہ جھڑپوں میں درجنوں رہائشی مکانات اور دوسری نجی املاک تباہ ہوئیں یا انہیں نقصان پہنچا۔
سرکاری عہدیداروں کی طرف سے ان مکانات کے جن میں عسکریت پسند آپریشنز کے دوران پھنس کر رہ گئے تھے یا وہ انہیں عارضی کمین گاہوں کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ 'کولیٹرل ڈیمیج' یا فوجی کارروائیوں کے دوران عام لوگوں کو پہنچنے والا نقصان قرار دیا اور کہا کہ ان کی خواہش اور کوشسش کے باوجود ان نقصانات کو نہیں ٹالا جاسکا۔
دوسری طرف متاثرین نے حفاظتی دستوں کی طرف سے نجی املاک کو جان بوجھ کر ہدف بنانے اور عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے دوران گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
سری نگر کے کنہ مزار علاقے کے ایک شخص عبد المجید بٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران شہری آبادیوں کے بیچ عسکریت پسندوں اور سرکاری دستوں کے درمیان پرُ تشدد محاذ آرائیاں ہوتی دیکھی ہیں۔ لیکن اس طرح لوگوں کے گھروں اور دوسری املاک کو جان بوجھ کر تباہ کرتے کبھی نہیں دیکھا ہے۔
ایک اور شہری نذیر احمد بقال کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی گھر اور بستیاں تباہ کی گئیں۔ جس کی مثالیں سری نگر ہی کے کاوڑارہ اور مائسیمہ علاقوں کی بستیوں میں کیے گئے آپریشنز میں ملتی ہیں۔
ان کے بقول فورسز نے ایسا عسکریت پسندوں کے حملوں کے جواب میں انتقام لینے کی غرض سے کیا۔ یہ سب فریقین کے درمیان ہونے والے مقابلوں میں نہیں ہوا تھا۔