بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہفتہ کو سرکاری فورسز کے ساتھ مسلح جھڑپ کے دوران ایک باغی کمانڈرسبزار احمد اور اس کے ساتھی کی ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے اور جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
سری نگر سے وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل نے بتایا کہ جھڑپ بھارتی فوج ، مقامی پولیس کے عسکریت مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ اور بھارت کے وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کی طرف سے جمعہ کی شام مشترکہ طور پر شروع کئے گئے ایک آپریشن کے دوران شروع ہوئی تھی اور کئی گھنٹے تک جاری رہی۔ جھڑپ میں حزب المجاہدین کا ایک اور جنگجو فیضان مظفر بھی کام آگیا۔
سبزار احمد کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی مسلم اکثریتی وادئ کشمیر کے مختلف علاقوں میں پُر تشدد مظاہرے شروع ہوگئے اور ان کے دوران کم سے کم ایک شہری ہلاک اور مجموعی طور پر 70سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والا شخص ترال کے علاقے میں عسکریت پسندوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان جاری گولیوں کے تبادلے کی زد میں آگیا تھا۔ عہدیدار یہ بھی کہتے ہیں کہ بپھرے ہجوموں کی طرف سے کی گئی سنگباری کے نتیجے میں25 حفاظتی اہلکار زخمی ہوگئے۔
بڑھتے ہوئے تناؤ اور بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑنے کے پیشِ نظر انٹرنیٹ اور پری پیڈ موبائیل فون سروسز معطل کردی گئیں ہیں جبکہ دارالحکومت سرینگر سمیت بیشتر شہروں، قصبہ جات اور بعض دوسرے علاقوں میں غیر معینہ عرصے کے لئے کرفیو یا کرفیو جیسی حفاظتی پابندیاں عائید کردی گئی ہیں۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے بیشتر لیڈروں اور سرکردہ کارکنوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا ہے۔ ان جماعتوں کے ایک اتحاد نے لو گوں سے اتوار سے دو دن تک عام ہڑتال کرنے اور منگل کے روز ترال چلنے کے لئے اپیل جاری کردی ہے۔
پولیس کے مطابق باغی رہنما سبزار احمد بھٹ اور ان کا ساتھی عسکریت پسند سکیورٹی فورسز کی طرف سے گزشتہ رات ترال کے علاقے میں ایک کارروائی کے دوران مارے گئے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں علاقے کے مکینوں نے بھارت مخالف نعرے بلند کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کی نرغے میں آئے ہوئے باغی کو وہاں سے نکل جانے کے لیے مدد فراہم کرنے کی کوشش میں اس علاقے کی طرف مارچ کیا۔
اس دوران اس علاقے کی مختلف مقامات پر مظاہرین اور سرکاری فورسز کی درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ مظاہرین پتھراؤ کر رہے تھے جبکہ نیم فوجی اہلکار اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے چھرے والے بندوق سے فائرنگ اور آنسو گیس کی شیل فائر کیے۔
باغی راہنما کی ہلاکت کی اطلاع ملنے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگوں جن میں طلبہ بھی شامل تھے سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیا اور اس دوارن وہ بھارت مخالف اور 'آزادی' کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔
اطلاعات کے مطابق ان جھڑپوں میں کئی عام شہری زخمی ہوئے۔
گزشتہ جولائی میں یہاں ایک علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اسی طرح کے شدید مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو کئی ماہ تک جاری رہا اور اس دوران سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے دوران کم ازکم 90 افراد مارے جا چکے ہیں۔
قبل ازیں بھارتی فوج نے کشمیر کے متنازع علاقے بھارت اور پاکستان میں مںقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے قریب چھ مشتبہ باغیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے علیحدگی پسند مسلح کارروائیاں کرتے آ رہے ہیں اور اس دوران سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور مختلف پرتشدد واقعات میں اب تک لگ بھگ 70ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
کشمیر کا علاقہ جنوبی ایشیا کی دو ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان متنازع ہے جس کا ایک حصہ پاکستان اور ایک بھارت کے زیر انتظام ہے۔