رسائی کے لنکس

صحافی ندیم ملک کو 'ایف آئی اے' کا نوٹس، 'مجھ پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا'


ندیم ملک نجی ٹی وی 'سما' پر نیوز شو کرتے ہیں۔
ندیم ملک نجی ٹی وی 'سما' پر نیوز شو کرتے ہیں۔

پاکستان کے سینئر صحافی اور نجی ٹی وی 'سما' کے اینکر ندیم ملک کو وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کے انسدادِ دہشت گردی ونگ کی جانب سے ایک خبر کے ذرائع بتانے کے لیے چھ جولائی کو طلبی کے نوٹس کا معاملہ صحافتی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔

اینکر ندیم ملک نے ایف آئی اے کے نوٹس کو مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

پیر کی شب اپنے پروگرام کے دوران ندیم ملک کا کہنا تھا کہ وہ 30 برس سے ذمہ دارانہ صحافت کر رہے ہیں اور وہ کبھی بھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے۔ لہذٰا اگر ایف آئی اے اُنہیں گرفتار کرنا چاہتی ہے تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔

خیال رہے کہ اینکر ندیم ملک نے رواں برس اپریل میں اپنے پروگرام کے دوران ایف آئی اے کے دو افسران کا حوالہ دیتے ہوئے نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک کے معاملے پر بات کی تھی۔

ندیم ملک نے اپنے پروگرام میں کہا تھا کہ جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل میں بعض تحقیقاتی اداروں اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی جانب سے ارشد ملک کو مرضی کا فیصلہ لینے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ ندیم ملک کے بقول یہ معلومات اُنہیں ایف آئی اے کے کچھ افسران نے دی تھیں جن کا نام وہ نہیں بتا سکتے۔

پیر کو اپنے نیوز شو کے دوران ندیم ملک کا کہنا تھا کہ وہ جج ارشد ملک کیس میں نہ تو فریق ہیں اور نہ ہی ملزم، لہذٰا وہ ایف آئی اے کے کسی نوٹس پر ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے اردگرد موجود لوگ انہیں گمراہ کر رہے ہیں اور ان کے میڈیا سے تعلقات خراب کرا رہے ہیں۔

دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ ندیم ملک کو نوٹس بھیجنے کا مقصد اُنہیں ہراساں کرنا نہیں بلکہ ایک کیس میں معاونت کے لیے اُنہیں بلایا گیا تھا۔

سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق ندیم ملک کو ان کی خبر کے ذرائع بتانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

ایف آئی اے کے انسدادِ دہشت گردی ونگ نے دو جولائی کو ندیم ملک کو ایک نوٹس جاری کر کے چھ جولائی کو انہیں ایف آئی اے میں طلب کیا تھا۔ تاہم وہ پیش نہیں ہوئے۔

ندیم ملک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "میں اس کیس میں فریق نہیں اور صحافی کبھی اپنے ذرائع کسی کو نہیں بتا سکتا لہذا میں ایف آئی اے نہیں جاؤں گا اور اس بارے میں کوئی معلومات نہیں دینا چاہتا۔"

ندیم ملک (فائل فوٹو)
ندیم ملک (فائل فوٹو)

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں بہت سے فریق موجود ہیں صرف جج ارشد ملک کا انتقال ہوا ہے، مریم نواز جنہوں نے پریس کانفرنس کی ان سے پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ناصر بٹ سمیت اس کیس کے کئی فریق موجود ہیں جن سے معلومات لی جا سکتی ہیں۔ کوئی بھی صحافی اپنا سورس نہیں بتاتا اور نہ میں بتانے کا پابند ہوں۔ اس طرح کے نوٹسز دینا حکومت کی دہشت پھیلانے کی کوشش ہے۔"

اس نوٹس کی وجوہات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ "میرے خیال میں حالیہ عرصہ میں انہوں نے بعض حکومتی شخصیات کی کرپشن جیسے راولپنڈی رنگ روڈ سمیت دیگر منصوبوں کے بارے میں رپورٹس دی تھیں جس کی وجہ لگتا ہے کہ کچھ حلقے اُن سے خفا ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا قانون نہیں ہے جس کے تحت یہ مجھے گرفتار کر سکیں، لیکن پاکستان میں ایسا ہو سکتا ہے۔ اگر مجھے گرفتار کرنا ہے تو کر لیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم خبر کو رپورٹ کرنے والے ہیں ہم کیس کے فریق نہیں ہیں۔

حکومت کا مؤقف

وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے نجی ٹی وی جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نوٹس کا مقصد ندیم ملک کو ہراساں کرنا نہیں بلکہ اُنہیں معاونت کے لیے بلایا گیا تھا۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ندیم ملک نے اپنے پروگرام میں اس کیس کے بارے میں بات کی تھی اور اس کیس کی تحقیقات کرنے والوں کو اس سے اندازہ ہوا کہ ان کے پاس کچھ معلومات موجود ہیں جو کیس میں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر ندیم ملک ایف آئی اے جا کر اس کیس میں اپنا بیان دیں تو کیس حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

پاکستان بار کونسل کے سیکرٹری خوشدل خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے نوٹسز، بقول ان کے، میڈیا کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہیں اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔

پاکستان میں خواتین صحافیوں کے لیے کام کرنا بدستور چیلنج
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:56 0:00

خوشدل خان نے کہا کہ حکومت کی طرف سے آزادیٔ صحافت کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن، ان کے مطابق، ان پر عمل نہیں کیا جا رہا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کور کرنے والے سینئر صحافی اویس یوسف زئی کہتے ہیں کہ اس کیس میں دہشت گردی کی دفعات ختم ہو چکی ہیں اور اب یہ کیس الیکٹرونک کرائمز ایکٹ کے تحت ایف آئی اے عدالت میں چل رہا ہے۔

اُن کے بقول، ایسے میں انسدادِ دہشت گردی ونگ اس کیس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ملزمان کی درخواست پر دہشت گردی کی دفعات ختم کی گئیں جس کے بعد یہ کیس ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو منتقل ہو چکا ہے۔

اویس یوسف زئی نے کہا کہ اس بارے میں ندیم ملک کو غیر متعلقہ ونگ کی طرف سے طلبی کے نوٹس پر جانا ضروری نہیں لیکن اگر وہ چاہیں تو تحریری جواب دے سکتے ہیں یا عدالت میں اس نوٹس کو چیلنج بھی کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے وکیل عمر گیلانی کہتے ہیں کہ ایف آئی اے کسی کیس میں معاونت کے لیے کسی شہری کو بلا سکتی ہے لیکن صحافی اس نکتہ پر جانے سے انکار کر سکتے ہیں کہ وہ اپنا سورس ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ اگر ندیم ملک تحریری طور پر بھی ایف آئی اے کو اس بارے میں جواب دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور نیشنل پریس کلب نے بھی اس معاملے میں حکومت پر شدید تنقید کی ہے اور اسے آزادیٔ صحافت پر قدغن قرار دیتے ہوئے ہر ممکن مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔

البتہ، حکومت ان تمام الزامات کی تردید کرتی آئی ہے اور اس کا مؤقف رہا ہے کہ صحافیوں پر حملوں میں کوئی بھی ریاستی ادارہ یا حکومت ملوث نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG