انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے کہا ہے کہ دنیا میں 2015 کے مقابلے میں 2016 میں سزائے موت پر عملدرآمد میں کمی آئی ہے۔
تنظیم کے مطابق اس کمی کی ایک بڑی وجہ ایران اور پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد میں کمی تھی۔ موت کی سزا پر سب سے زیادہ عملدرآمد کرنے والے دیگر ملکوں میں چین، سعودی عرب اور عراق شامل ہیں۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایران میں 2016 میں 567 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا جب کہ 2015 میں یہ تعداد 977 بتائی گئی تھی۔ پاکستان میں 2016 میں 87 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا، جب کہ 2015 میں 326 مجرموں کو پھانسی دی گئی تھی۔
تاہم تنظیم کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا میں سزائے موت پر سب سے زیادہ عملدرآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
ایمنسٹی کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد میں تو کمی آئی ہے لیکن 2016 میں 277 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جن میں سے 133 کو یہ سزا فوجی عدالتوں نے سنائی۔
16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر مہلک دہشت گرد حملے کے بعد حکومت نے پاکستان میں سزائے موت پر عائد چھ سالہ عارضی پابندی ختم کرتے ہوئے ان سزاؤں پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا تھا۔
دہشت گردی کے مقدمات کو جلد نمٹانے کے غرض سے آئین میں ترمیم کر کے ان مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلانے کے لیے دو سال فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جن کی معیاد پوری ہونے پر رواں سال ایک بار پھر ان کی مدت میں دو سال کی توسیع کی گئی۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں اور یورپی ممالک کی طرف سے پاکستان سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ سزائے موت پر عملدرآمد پر پابندی عائد کرے لیکن حکومت کا موقف رہا کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات میں قانون کے مطابق دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن ایمنسٹی کی رپورٹ سے اتفاق کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان میں پھانسیوں کی تعداد میں کمی بین الاقوامی دباؤ کا ہی نتیجہ ہے۔
لیکن وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ سزائے موت پانے والے دیگر افراد کی سزاؤں پر عملدرآمد ہوگا یا نہیں۔
"بین الاقوامی دباؤ پر ہی اس (سزا) پر عملدرآمد میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن جن کو سزا ہو چکی ہے اس میں جب تک پارلیمنٹ یا پھر صدر جن کے پاس سز امعاف کرنے کا اختیار ہے وہ معافی نہ دیں اس وقت تک جن کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہے ان کے بارے میں یہ سوچنا کہ ان کو پھانسی نہیں ہو گی میرا خیال ہے یہ قبل از وقت ہو گا۔"
پاکستان میں سزائے موت کے لگ بھگ آٹھ ہزار قیدی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔
ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں دنیا بھر میں سزائے موت پر عملدرآمد کے اعدادوشمار فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ2015ء میں 1634 جب کہ 2016 میں 1032 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوا۔
افغانستان میں عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی موت کی سزاؤں میں سے چھ پر عمل درآمد کیا گیا۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق امریکہ میں 20 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا، 1991 کے بعد امریکہ میں ریکارڈ کی گئی یہ سب سے کم تعداد ہے۔