انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ میانمار کی فوج کی طرف سے ملک میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مبینہ پرتشدد کارروائیاں ’انسانیت کے خلاف جرم‘ کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔
لیکن میانمار کی حکومت کی طرف سے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ سرکاری فورسز دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں۔
تنظیم کی طرف سے کہا گیا کہ نو اکتوبر کو ریاست راکین میں سرحدی پولیس پر حملے کے بعد میانمار کی سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر ایک آپریشن شروع کیا۔
میانمار کی حکومت کا الزام ہے کہ یہ حملہ روہنگیا اقلیت نے کیا جس میں نو پولیس افسر مارے گئے تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ راکین میں فوجی روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کرنے اور اُن پر جنسی تشدد کرنے کے علاوہ دیہاتیوں پر ہیلی کاپٹر سے فائرنگ میں بھی ملوث پائے گئے۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بنگلہ دیش نے میانمار سے ملک میں داخل ہونے والے ہزاروں پناہ گزینوں کو غیر قانونی طور پر واپس دھکیل دیا۔
ایمنسٹی کی طرف سے کہا گیا کہ جان بچا کر بنگلہ دیش جانے والوں کی درست تعداد تو معلوم نہیں لیکن اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق یہ تعداد کم از کم 27 ہزار تک ہو سکتی ہے۔
ایمنسٹی کے بیان میں کہا گیا کہ ’’بچ جانے والے افراد سے انٹرویوز اور سیٹلائیٹ سے حاصل کی گئی تصاویر کی بنیاد پر ایمنسٹی یہ تصدیق کرتی ہے کہ فوج نے روہنگیا کے 12 ہزار سے زائد گھروں اور عمارتوں کو نذر آتش کیا۔‘‘
تاہم ان اعداد و شمار کے بارے میں میانمار کی طرف سے کچھ نہیں کہا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ’’انٹرنیشنل کرائسس گروپ‘‘ کی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ میانمار میں سرحدی چوکی پر حملے میں ملوث تنظیم حرکۃ الیقین کا قیام سعودی عرب میں آیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے یہ رپورٹ ایسے موقع پر جاری ہوئی جب علاقائی تنظیم آسیان کے اجلاس میں شرکا میانمار میں ہونے والی مبینہ پرتشدد کارروائیوں پر غور کریں گے، عموماً آسیان، ممالک کے اس طرح کے اندرونی معاملات میں مداخلت یا غور نہیں کرتی۔