رسائی کے لنکس

فلم ’پٹھان ‘ کی بائیکاٹ کی مہم، شاہ رخ خان سوشل میڈیا پر برس پڑے


خاه رخ خاں. فائل فوٹو
خاه رخ خاں. فائل فوٹو

بالی ووڈ کے بادشاہ، شاہ رخ خان نے جمعرات کو کلکتہ میں بالی ووڈ اداکار امیتابھ بچن کے ساتھ ’کلکتہ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘ کا افتتاح کیا اور اپنی آنے والی فلم ’پٹھان‘ کے بائیکاٹ کی اپیلو ں کے درمیان سوشل میڈیا کے منفی پہلو پر تنقید کی اور کہا کہ سوشل میڈیا تنگ نظری سے متاثر ہے۔

انہوں نے اپنی تقریر میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے معاشرے میں پھیلی منفی سوچ او راس کے غلط اثرات کا ذکر کیااور کہا کہ کچھ بھی ہو جائے ہم جیسے لوگ ہمیشہ مثبت رہیں گے۔

واضح رہے کہ ان کی آنے والی فلم پٹھان کے ایک سین میں ایک نغمہ ’بے شرم رنگ‘ میں اداکارہ دیپیکا پاڈوکون کے زعفرانی رنگ کے لباس پر شدید تنقید ہو رہی ہے اور اس معاملے پر تنازع اتنا بڑھ گیا ہے کہ ریاست مدھیہ پردیش میں اس فلم پر پابندی لگنے کا امکان قوی ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کے ایک طبقے کی جانب سے فلم پر پابندی کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

انہوں نے اپنی تقریر میں کرونا کی وبا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب ہم مل نہیں سکے۔ لیکن دنیا اب معمول پر آتی جا رہی ہے۔ ہم سب خوش ہیں اور میں سب سے زیادہ خوش ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی گریز نہیں ہے کہ دنیا چاہے کچھ بھی کرے میں اور تم اور دنیا میں سبھی مثبت لوگ زندہ ہیں۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقت کی اجتماعی کہانی کو سوشل میڈیا نے شکل و صورت دی ہے۔ اس خیال کے برعکس کہ سوشل میڈیا سنیما کو منفی انداز میں متاثر کرے گا، میرا ماننا ہے کہ سنیما کو اب بھی اہم کردار ادا کرنا ہے۔

ان کے بقول سوشل میڈیا عموماً تنگ نظری سے متاثر ہوتا ہے جو انسانی مزاج کو اس کی بنیاد تک محدود کرتا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ منفیت سوشل میڈیا کی صارفیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اس طرح اس کی تجارتی قیمت کو بھی بڑھاتی ہے۔ اس قسم کی باتیں اجتماعی بیانیے کو محدود کرتی ہیں اور اسے آگے چل کر تقسیم کرنے والی اور تباہ کن بناتی ہیں۔

خیال رہے کہ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے ایک روز قبل فلم کے ایک گانے ’بے شرم رنگ‘ میں دیپیکا پاڈوکون کے رقص اور کپڑوں پر اعتراض کیا تھا۔ انہوں نے فلم سازوں کو انتباہ کیا کہ اگر فلم کے کچھ مناظر اور لباس کو تبدیل نہیں کیا گیا تو وہ اپنی ریاست میں اس فلم کو ریلیز نہیں ہونے دیں گے۔

نروتم مشرا نے یہ بھی کہا کہ پٹھان کے گانے میں ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘کی حمایتی دیپیکا پاڈوکون کے کپڑے انتہائی قابل اعتراض ہیں۔

خیال رہے کہ دائیں بازو کے نظریات کے حامل طبقات مودی حکومت کے ناقدوں اور خاص طور پر جواہر لعل نہرو (جے این یو) کے کچھ سابق طلبا کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا نام دیتے ہیں۔

چند سال قبل جب جے این یو میں طلبہ کے ایک مظاہرے کے دوران مبینہ طور پر ’بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے‘ کا نعرہ لگا تھا، اس کے بعد ہی ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی اصطلاح سامنے آئی۔ جے این یو کے ہاسٹلز پر جب ایک گروہ نے حملہ کیا تھا جس میں کئی طلبہ زخمی ہوئے تھے تو اس وقت وہاں جا کر طلبہ سے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں دیپیکا بھی شامل تھیں۔

یاد رہے کہ مذکورہ گانے کے مناظر میں دیپیکا زعفرانی رنگ کی بکنی میں ہیں۔ باقی لباس بھی زعفرانی رنگ میں ہے۔

آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی چکرپانی نے بھی بکنی میں زعفرانی رنگ استعمال کرنے پر اعتراض کیا ہے۔ ان کے مطابق بھگوا رنگ ہندوؤں کا مذہبی رنگ ہے اور اس فلم میں اس رنگ کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ ہندو معاشرہ یہ توہین برداشت نہیں کرے گا۔

شاہ رخ خان نے اپنی تقریر میں سنیما کی اہمیت پر زور دیا اور اسے جدید دور کا سب سے اہم میڈیم قرار دیا۔ ان کے بقول سنیما کہانیوں کو سادہ ترین شکل میں سنا کر انسانی فطرت کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس سے ہمیں ایک دوسرے کو بہتر طور پر جاننے کا موقع ملتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آنے والی نسلوں کے لیے بہتر دنیا کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے۔ سنیما کی دنیا میں آج کی دنیا سے ملنا ایک کمال ہے۔ یہاں صرف ملاقات ہی نہیں ہوتی بلکہ مختلف ثقافتوں، رنگوں، نسلوں اور مذاہب کے لوگوں کو سمجھنے میں مدد بھی ملتی ہے۔

ان کے بقول کلکتہ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے موجودہ تعصبات کو ختم کرنے کے لیے نئے پلیٹ فارمز بنانے کی ضرورت ہے۔ آئیے ہم ایک ساتھ مل کر آنے والی نسلوں کے لیے بہتر دنیا کی تشکیل کریں۔

انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز بنگلہ زبان میں کیا اور امیتابھ بچن کو ’شہر کا داماد‘قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو کلکتہ میں ہونا بڑی بات ہے۔ یہاں دیدی، دادا، شہر کے محبوب داماد امیتابھ بچن اور جیہ آنٹی کو دیکھنا بڑی خوشی کی بات ہے۔ یاد رہے کہ ممتا بنرجی کو عام طور پر دیدی کہا جاتا ہے اور جیہ کا مائیکہ کلکتہ ہی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG