قانون نافذ کرنے والے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ پچھلے سال امریکی فوجی اڈے پر حملہ کرنے والے سعودی مسلح شخص کا تعلق القاعدہ سے تھا اور ایف بی آئی نے جو معلومات حاصل کیں ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کئی برسوں سے ہو رہی تھی۔
اٹارنی جنرل ولیم بار اور ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے ورچوئل پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ انکشاف ایف بی آئی کے ان ایجنٹوں نے کیا جو دسمبر میں ہونے والی شوٹنگ کے بارے میں تفتیش کر رہے تھے۔
انہوں نے مسلح شخص محمد سعید ال شمرانی کے دو سمارٹ فونز کو کھول کر یہ معلومات حاصل کی ہیں۔
ال شمرانی سعودی شاہی فضائیہ کا سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا اور ایک امریکی اڈے میں تربیت حاصل کر رہا تھا۔ اس نے چھ دسمبر کو ایک کلاس روم میں فائر کھول دیا، جس سے ایک امریکی فوجی ملاح ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
الشمرانی نے اپنے دونوں فونز پر فائر کر کے انہیں تباہ کرنے کی کوشش کی مگر اس سے پیشتر کہ وہ دوسرے فون پر فائر کرتا، پولس نے گولی مار کر اسے ہلاک کر دیا۔
جنوری میں اٹارنی جنرل بار نے اس حملے کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے فون کی کمپنی ایپل سے کہا کہ وہ فون کو کھولنے میں مدد کرے۔ ایپل نے پرائیویسی وجوہات کی بنا پر ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ایف بی آئی کے کیمپوٹر ماہرین نے کئی مہینوں کی کوشش کے بعد اسے کھول کر اس میں محفوظ مواد حاصل کر لیا۔
اٹارنی جنرل بار نے کہا کہ ایف بی آئی نے ال شمرانی کے فونز کو کھول کر شاندار کارنامہ سر انجام دیا ہے، ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
تفتیش کاروں کا پہلے خیال تھا کہ حملہ آور الشمرانی جہادی نظریات سے متاثر تھا، مگر فون سے ملنے والی معلومات سے ظاہر ہوا کہ اسے 2015 میں انتہا پسند بنا دیا گیا تھا اور اس نے برسوں پہلے حملے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ حکام کے مطابق وہ اس خصوصی آپریشن کی غرض سے سعودی فضائیہ میں شامل ہوا تھا۔
حملے سے قبل کئی مہینوں تک وہ جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے کارکنوں سے اس منصوبے کے طریقہ کار کے بارے میں ہدایات لیتا رہا تھا۔ ایف بی آئی کے ڈائرکٹر رے نے بتایا کہ وہ حملے سے ایک رات قبل بھی ان سے رابطے میں تھا۔
حکام نے بتایا کہ فون سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے لیڈر عبداللہ ال مالکی کے خلاف کارروائی میں مدد ملی۔
بار اور رے نے فون کمپنی ایپل کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ اپنی قومی سلامتی کو بڑی کارپوریشنوں کے ہاتھوں میں نہیں دیا جا سکتا۔ وقت آ گیا ہے کہ اس کا حل قانون سازی کے ذریعے نکالا جائے۔
تفتیش کے دوران ایف بی آئی نے امریکہ میں زیر تربیت سینکڑوں سعودی فوجیوں سے انٹرویو کیے۔
رے کا کہنا ہے کہ فون سے ایسی کوئی معلومات نہیں ملیں کہ امریکہ میں کسی اور دہشت گرد حملے کا خطرہ ہے۔
جنوری میں امریکہ میں زیر تربیت 21 سعودی فوجیوں کو واپس بھیج دیا گیا۔ اس شوٹنگ کے بعد امریکی محکمہ دفاع نے امریکہ میں تمام غیر ملکی زیر تربیت فوجیوں کے ریکارڈ کی چھان بین کی ہے۔
محکمہ دفاع کے مطابق پچھلے 20 برسوں کے دوران ڈیڑھ سو ملکوں کے 10 لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو امریکہ میں تربیت دی جا چکی ہے۔