رسائی کے لنکس

پانچ کروڑ افراد ڈیمنشیا کا شکار ہیں: رپورٹ


فائل
فائل

ڈیمنشیا ایک ایسا مرض ہے جو دنیا بھر میں عام لوگوں کی صحت کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پانچ کروڑ افراد ڈیمنشیا کا شکار ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ 30 برسوں میں یہ تعداد تین گنا ہو جائے گی۔

تحقیق کار ڈیمنشیا کے علاج اور روک تھام کے طریقوں کی تلاش میں ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ کی کیرل پیرسن نے بتایا ہے کہ ’’امریکہ میں اس سلسلے میں ایک کارآمد تجربہ کیا جا رہا ہے‘‘۔

عمر میں اضافے کے ساتھ باقاعدہ ورزش، صحت مند خوراک، بلڈ پریشر یا فشار خون کو معمول کے مطابق برقرار رکھنا، کولسٹرول اور بلڈ شوگر کو صحت مند سطح پر قائم رکھنا ایسے عوامل ہیں جو ڈیمینشیا کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، ڈیمنشیا عمر میں اضافے کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑھتی عمر ڈیمنشیا کا باعث بن سکتی ہے۔ اور یوں، عمر میں اضافہ یادداشت کے لیے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔

آجکل دنیا میں لوگوں کی عمروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے صحت کے ادارے اور تحقیق کار ڈیمینشیا کی روک تھام، خاتمے اور علاج معالجے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے الزائمر کا مرض بھی ہےجو ڈیمینشیا کی انتہائی عام قسموں میں سے ایک ہے۔

ڈیوڈ شور ایک نئے طریق کار کو آزما رہے ہیں جو الزائمر کے ابتدائی مراحل میں اس کا علاج کر سکتا ہے۔ شور اپنے ڈاکٹر ویبھور کرشنا کے ساتھ ہیں جو ریاست اوہائیو کے ویکسنر میڈیکل سنٹر میں ایک نیورو سرجن ہیں۔

ڈاکٹر کرشنا کا کہنا ہے کہ ’’سب ٹھیک ہے‘‘؛ اور ڈیوڈ شور کہتے ہیں کہ ’’آئیے اسے آزماتے ہیں‘‘۔ اور، ڈاکٹر کرشنا کا جواب بھی یہی ہے کہ آئیے یہ تجربہ کرتے ہیں۔

شور کے لیے آزمائے جانے والے طریق کار میں ’ساونڈ ویوز‘ کا استعمال کیا جائے گا۔ اس میں ’الٹرا ساونڈ ویوز‘ کی مدد سے ہدف بناتے ہوئے ’بلڈ برین بیرئیر‘ کو کھولا جاتا ہے۔ یہاں یہ بھی وضاحت کرتے چلیں کہ ’بلڈ برین بیرئیر‘ ایک حفاظتی تہ ہے جو دماغ کو انفیکشنز سے محفوظ رکھتی ہے۔ لیکن، ڈاکٹر کرشنا کا کہنا ہے کہ اس بیریئر کی مدد سے الزائمر جیسے اعصاب کو متاثر کرنے والے امراض کا علاج کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر کرشنا کا کہنا ہے کہ کہ ’بلڈ برین بیریئر‘ کو کھولنے سے ہم دماغ کے زیادہ ٹشوز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، اور یوں علاج کو زیادہ مؤثر بنا سکتے ہیں۔

شور اور ان کی اہلیہ کِم کسی بھی نئے علاج کے لیے تیار تھے جو ڈیمینشیا کو روکنے میں ان کی مدد کر سکے۔ کِم اپنے اس رد عمل کا اظہار کرتی ہیں جب انہیں ایک فون کال میں دعوت دی گئی کہ وہ ایک کلینیکل ٹرائیل میں شریک ہوں۔

کِم بتاتی ہیں کہ ٹیلی فون کال میں انہیں بتایا گیا کہ یہ ایک تجربہ ہے اور کیا ہم اس میں شامل ہونا چاہیں گے۔ اور اس کے بارے میں نہ جانتے ہوئے بھی ہم نے اس میں شرکت کی حامی بھر لی۔

شور ان 10 مریضوں میں سے ایک تھے جنہیں اس تجرباتی مرحلے میں شامل کیا گیا۔ اس ٹرائیل میں ایم آر آئی کی مدد سے دماغ کے ان حصوں پر توجہ مرکوز کی گئی جو یادداشت اور پہچان کا کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کرشنا کی وضاحت کے مطابق یہی وہ حصے ہیں جہاں الزائیمر کے مریضوں میں زہریلی پروٹین جمع ہو جاتی ہیں جنہیں ’ایمے لائیڈ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر کرشنا کا کہنا ہے کہ ’ایمے لائیڈ‘ کی بڑی مقدار اور الزائیمر کے عارضے میں یادداشت کھونے کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔

کرشنا کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس طریق کار کی مدد سے مریض کا اپنا خود دفاعی نظام اس زہریلی پروٹین، یعنی ایمے لائیڈ کی کچھ مقدار کو خود سے ختم کر سکے۔ اس طریق کار میں الٹرا ساؤنڈ لہروں کی مدد سے دماغ کے اس حصے کو سکیڑا اور پھیلایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر کرشنا کا کہنا ہے کہ اس عمل سے ’بلڈ برین بیرئیر‘ کو میکانکی انداز میں کھولنے میں مدد ملتی ہے۔ اس عمل کے دوران مریض بدستور ہوش میں رہتا ہے۔

بیرئیر کو کھولنے سے ممکن ہے ایک روز یہ ممکن ہو سکے کہ ڈاکٹر مطلوبہ جگہ پر براہ راست دوا کی فراہمی کر سکیں۔

کِم شور محسوس کرتی ہے کہ یہ امکان موجود ہے کہ ان کے شوہر اس طریق علاج سے فائدہ اٹھا سکیں۔

کِم شور کے الفاظ میں، ’’ہمیں امید ہے اس سے ان کی مدد ہو سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ممکن ہے یہ اور مریضوں کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکے‘‘۔

شور کی عمر محض چھپن برس تھی جب انہیں الزائیمر کا عارضہ لاحق ہوا۔ وہ خود ایک ایسے جائزے کا حصہ بنے ہیں جس سے دوسروں کی بھی مدد ہو سکتی ہے اور ایسے لوگوں کی جو ابھی اس مرض یعنی الزائمر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔

XS
SM
MD
LG