امریکی معاون نائب وزیرِ خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے منگل کے روز کابل میں حزب اسلامی کے سربراہ، گلبدین حکمت یار سے اُن کے گھر پر ملاقات کی۔
حزب اسلامی کے ایک اخباری بیان کے مطابق، ملاقات کے دوران دونوں نے امن اور دیگر متعلقہ امور پر گفتگو کی۔
گذشتہ برس جب سے گلبدین حکمت یار کابل واپس لوٹے ہیں، کسی اعلیٰ امریکی اہل کار کی یہ اُن کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔
رواں ہفتے مکمل ہونے والے افغانستان و پاکستان کے اپنے دورے کے بعد واشنگٹن پہنچنے پر، ایلس ویلز نے کہا تھا کہ پاکستان کو افغان طالبان پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ ماضی کی نسبت افغان طالبان پر اسلام آباد کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔ لیکن، امریکہ اور افغانستان پاکستان کے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔
گذشتہ ہفتے، جمعرات کے روز کی معمول کی بریفنگ کے دوران اسلام آباد میں ترجمان دفترِ خارجہ محمد فیصل نے کہا تھا کہ ’’پاکستان افغانستان میں امن و سلامتی کے لیے پرعزم ہے اور وہ افغانستان کے مسئلہ کے پرامن حل کے لیے افغان صدر اشرف غنی کی مذاکرات کی پیش کش کی حمایت کرتا ہے‘‘۔
تاہم، پاکستانی ترجمان نے وضاحت کی تھی کہ ’’طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں اور اس بارے میں افغان تنازع کے تمام فریقوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔
اس سے قبل، آٹھ اپریل کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے افغانستان کا دورہ کیا تھا، جہاں اُنھوں نے صدر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے علاوہ حزب وحدت کے استاد محمد محقق سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں، جنھیں تجزیہ کاروں نے مصالحت کی کوششوں کے تناظر میں مثبت قرار دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں علاقائی روابط اور رابطہ کاری پر توجہ مرکوز کرنا بھی ایک مثبت سمت میں پیش رفت ہے۔
حزب اسلامی کے سربراہ جون، سنہ 2017ء میں کابل واپس آئے تھے۔
قبائلی سردار، گلبدین حکمت یار، جنھوں نے صدر اشرف غنی کی انتظامیہ کے ساتھ امن معاہدہ طے کیا کہا تھا ہے کہ وہ ’’کسی کو غیر قانونی طور پر حکومت کو ہٹانے کی اجازت نہیں دیں گے، کیونکہ ایسی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ طالبان کابل پر قابض ہو جائیں گے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’کسی متبادل کے بغیر، کیا اس کا اور کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے، ماسوائے یہ کہ کابل ہتھیاربند باغیوں کے حوالے ہو جائے‘‘۔
کابل واپس آنے پر صدر اشرف غنی نے بدنام قبائلی سردار کو گرمجوشی سے خوش آمدید کہا تھا۔ اُن کی واپسی متنازعہ تھی، جیسا کہ بہت سوں نے کہا ہے کہ جنگی جرائم پر اُن کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیئے۔
ایک سنگدل قبائلی سردار کے طور پر، حکمت یار نے افغانستان کی عشروں سے جاری لڑائی کے دوران بے تحاشہ خونریزی میں ملوث رہے ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں، اُنھوں نے راکٹوں کی مدد سے کابل پر حملہ کیا تھا، جب ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
غنی کو توقع ہے کہ اُن کے ساتھ سمجھوتے کے نتیجے میں دیگر شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ بھی حکومت کے ساتھ اپنے طور پر معاہدے کریں۔