پشاور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے اُنہیں سندھ پولیس کے حوالے کرنے کی ہدایت کی ہے۔
علی وزیر کو پشاور پولیس نے گزشتہ روز آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے متاثرین کی جانب سے گورنر ہاؤس کے سامنے دیے جانے والے احتجاجی دھرنے سے گرفتار کیا تھا۔
علی وزیر کے وکیل سنگین خان ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علی وزیر کو جمعرات کی صبح پشاور کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت نے انہیں سندھ پولیس کے حوالے کرنے کی ہدایت کی ہے۔
پی ٹی ایم کے رہنما ڈاکٹر سید عالم کا کہنا ہے کہ مقامی سول عدالت کے بعد ضمانت کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت سے رجوع کیا گیا۔ مگر عدالت نے علی وزیر کو ٹرانزٹ ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔
تاہم ڈاکٹر سید عالم محسود کے بقول ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے علی وزیر کو بذریعہ جہاز پشاور سے کراچی لے جانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ڈاکٹر سید عالم محسود نے بتایا کہ علی وزیر کو دل اور گردوں سمیت کئی عارضے لاحق ہیں۔ بیماریوں کا سامنا ہے۔ لہذٰا وہ بذریعہ سڑک سفر کرنے کے قابل نہیں۔
پشاور کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ علی وزیر سمیت پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں کے خلاف کراچی کے سہراب گوٹھ تھانے میں رواں ماہ چھ دسمبر کو دفعات 505 بی، 153 اے، 120 بی، 34، 506 اور 188 کے تحت مقدمات درج ہیں اور انہی دفعات کے تحت پشاور کی شرقی پولیس نے انہیں گرفتار کیا ہے۔
پی ٹی ایم رہنماؤں پر الزام ہے کہ اُنہوں نے چھ دسمبر کو سہراب گوٹھ کراچی میں پیشگی اجازت لیے بغیر جلسہ کیا اور اس میں سیکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت انگیز الفاظ استعمال کیے۔
پولیس حکام کے بقول سندھ پولیس کی ایک ٹیم پہلے ہی سے علی وزیر کی گرفتاری اور کراچی منتقلی کے لیے پشاور پہنچ چکی ہے۔
ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ علی وزیر سمیت پی ٹی ایم کے لگ بھگ 40 رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ جن میں تحریک کے سربراہ منظور پشتین اور شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ بھی شامل ہیں۔
بدھ کو پشاور کے آرکائیوز ہال میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے تعزیتی ریفرنس اور بعد میں گورنر ہاؤس پشاور کے سامنے علامتی احتجاجی دھرنے میں منظور پشتین اور محسن داوڑ بھی شریک تھے۔ تاہم منظور پشتین اور محسن داوڑ گرفتاری سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایک ٹوئٹ میں علی وزیر کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
تاہم ابھی تک حکومت کی جانب سے علی وزیر کی گرفتاری کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
جنوری 2018 میں کراچی پولیس کے مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف احتجاجی تحریک کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی پی ٹی ایم ابھی تک نشیب و فراز سے دوچار ہے۔
اس تحریک میں شامل اہم رہنماؤں کے خلاف ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزامات کے سلسلے میں ملک کے چاروں صوبوں بالخصوص پشاور، کراچی، کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد، راول پنڈی، سوات، بنوں، صوابی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں مقدمات درج ہیں۔