رسائی کے لنکس

امریکہ میں پہلی بار نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت پر عمل درآمد


سزائے موت کے مجرم کے چہرے پر ایک ماسک لگایا گیا جس کے ذریعے نائٹروجن گیس کا اخراج کیا گیا جو مجرم کے لیے آکسیجن گیس کے خاتمے کا سبب بنی۔
سزائے موت کے مجرم کے چہرے پر ایک ماسک لگایا گیا جس کے ذریعے نائٹروجن گیس کا اخراج کیا گیا جو مجرم کے لیے آکسیجن گیس کے خاتمے کا سبب بنی۔

امریکہ کی ریاست الاباما میں قتل کے ایک مجرم کو نائٹروجن گیس کی مدد سے سزائے موت دے دی گئی ہے۔ یہ امریکہ میں نائٹروجن گیس سے کسی بھی مجرم کی موت کی سزا پر عمل درآمد کا پہلا کیس ہے۔

ریاست الاباما کے حکام کے مطابق 58 برس کے کینتھ اسمتھ کی سزا پر عمل درآمد ریاستی جیل میں جمعرات کی شب لگ بھگ ساڑھے آٹھ بجے کیا گیا۔

حکام کا کہنا تھا کہ کینتھ کے چہرے پر ایک ماسک لگایا گیا جس کے ذریعے نائٹروجن گیس کا اخراج کیا گیا جو مجرم کے لیے آکسیجن گیس کے خاتمے کا سبب بنی۔

اس سے قبل ریاست الاباما میں کسی بھی مجرم کی سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے مہلک انجیکشن کا استعمال کیا جاتا تھا۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق حکام کا بتانا ہے کہ کینتھ اسمتھ نامی مجرم کو 1988 میں کرائے کا قاتل قرار دیا گیا تھا جسے ایک پادری کی بیوی کو معاوضے کے عوض قتل کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔

ریاست الاباما کی انتظامیہ نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت کے مجرموں کی سزا پر عمل درآمد کا آسان طریقہ قرار دے رہی ہے۔ البتہ ناقدین اسے ظالمانہ اور تجرباتی طریقۂ کار قرار دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ایک وفاقی جج نے 10 جنوری 2024 کو اپنے ایک فیصلے میں سزائے موت کے اس نئے طریقۂ کار کے استعمال کی اجازت دی تھی۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بھی تین روز قبل ریاست الاباما سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ نائٹروجن گیس سے دم گھونٹنے سے کسی قیدی کو دی جانے والی پہلی طے شدہ سزائے موت کو روک دے۔ کیوں کہ یہ اقدام اذیت دینے کے مترادف ہے جب کہ بین الاقوامی قانون کے تحت امریکی یقین دہانیوں کی خلاف ورزی ہے۔

امریکہ کی ان ریاستوں میں جہاں سزائے موت کا قانون موجود ہے، وہاں اب بھی زہر کے انجیکشن کے ذریعے موت کی سزا دی جاتی تھی۔ کئی ریاستوں میں موت کی سزا کا قانون موجود نہیں جب کہ بعض ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں سزائے موت تو موجود ہے لیکن انتظامیہ کی جانب سے اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

امریکہ میں انجیکشن کے ذریعے موت کی سزا پر عمل درآمد کا آغاز 1982 میں ہوا تھا۔

ریاست الاباما کے حکام کا کہنا تھا کہ کینتھ اسمتھ کی سزا پر عمل درآمد میں 22 منٹ لگے۔ کینتھ اسمتھ نائٹروجن گیس ملنے کے بعد کئی منٹ سے ہوش و حواس میں تھے۔ البتہ آخری کے دو منٹ میں ان کے جسم نے متعدد جھٹکے لیے اور وہ تڑپتے ہوئے نظر آئے۔ وہ کئی منٹ تک لمبی لمبی سانسیں لینے کی کوشش کرتے رہے اور بعد ازاں ان کی سانس بند ہو گئی۔

کینتھ اسمتھ نے اپنے آخری بیان میں کہا تھا کہ آج شب الاباما انسانیت سے ایک قدم پیچھے کی جانب سفر کر رہی ہے۔ میں محبت، امن اور روشنی کے پیغام کے ساتھ جا رہا ہوں۔

انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کی جانب دیکھتے ہوئے ہاتھوں کے اشارے سے محبت کا پیغام بھی دیا۔

الاباما کی گورنر کے آئیوی کا کہنا تھا کہ سزا پر عمل درآمد سے 1988 میں الزبتھ سینیت کی کرائے کے قاتل کے ہاتھوں موت کا انصاف ہے۔

سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد ریاست کے اٹارنی جنرل اسٹیو مارشل کا کہنا تھا کہ نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت پر عمل درآمد ایک مؤثر اور انسانی طریقہ ثابت ہوا ہے۔

واضح رہے کہ بعض ڈاکٹر اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس طریقے سے سزائے موت پر عمل درآمد پر شدید خدشات کا اظہار کیا تھا۔

مجرم کینتھ اسمتھ کے وکلا نے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی۔ تاہم ان کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔

کینتھ اسمتھ کی موت کی سزا پر عمل درآمد کے لیے پروٹوکول پہلے سے طے تھے جس کے مطابق ان کے ہاتھ پیر ایک پہیوں والے اسٹریچر پر باندھے جانے تھے۔ اس کے بعد انہیں سزائے موت کے چیمبر میں لے جایا جانا تھا۔ ان کے چہرے پر اس طرح کا ماسک لگایا جانا تھا جس نے ان کا پورا چہرہ ڈھانپ دیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے کمرے میں موجود عملے نے اس ماسک کے ذریعے لگ بھگ 15 منٹ تک نائٹروجن گیس کا اخراج کیا جانا تھا۔

واضح رہے کہ امریکہ کی وہ ریاستیں جہاں سزائے موت پر عمل درآمد کیا جاتا ہے وہاں اب مہلک انجیکشن لگانے کے بجائے دوسرے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں جن سے سزائے موت پر عمل درآمد ہو سکے۔ اس کی بنیادی وجہ اس انجیکشن کے لیے مہلک دوا کی تلاش ہے۔

امریکہ کی تین ریاستوں الاباما، مسی سپی اور اوکلاہوما نے نائٹروجن گیس کے طریقۂ کار کے تحت سزائے موت پر عمل درآمد کی منظوری دی ہے۔ البتہ اس سزائے موت پر عمل درآمد سے قبل کسی بھی ریاست نے اس طریقے سے سزا دینے کے عمل کا تجربہ نہیں کیا تھا۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG