واشنگٹن —
صومالیہ کی مسلح شدت پسند تنظیم 'الشباب' نے ایک مسلم امدادی تنظیم کے اپنے زیرِ قبضہ باقی ماندہ علاقے میں کام کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
تنظیم سے وابستہ شدت پسندوں کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر پیر کو جاری کیے جانے والے پیغامات میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے برطانوی تنظیم 'اسلامک ریلیف' کو اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں کام کرنے کی دی گئی اجازت منسوخ کردی ہے۔
'الشباب' کے جنگجووں کے مطابق 'اسلامک ریلیف' درپردہ ان بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں، بشمول اقوامِ متحدہ کے 'ورلڈ فوڈ پروگرام' کی سرگرمیوں کو توسیع دے رہی تھی جن پر تنظیم نے پابندی عائد کررکھی ہے۔
دریں اثنا 'اسلامک ریلیف' کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسے 'الشباب' کے زیرِ قبضہ علاقوں میں کام کرنے کا اجازت نامہ منسوخ کیے جانے کے بارے میں باضابطہ طور پر تاحال آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔
امدادی تنظیم نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ اس کا کوئی بھی منصوبہ 'ورلڈ فوڈ پروگرام' کے تعاون سے نہیں چل رہا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے اہم ساحلی شہر 'کسمایو' سے پسپائی کے بعد 'الشباب' کے جنگجووں کے قبضے میں اب صومالیہ کا کوئی بڑا شہر یا قصبہ نہیں رہا ہے۔ تاہم تنظیم کے شدت پسند اب بھی ایک وسیع دیہی علاقے اور آبادیوں کو باہم منسلک کرنے والی اہم شاہراہوں پر قابض ہیں۔
قبل ازیں صومالیہ میں 'الشباب' سے مصروفِ جنگ افریقی یونین کے فوجی دستوں کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ افریقی یونین اور صومالی حکومت کے فوجیوں نے شدت پسندوں سے 'ونلا وین' نامی ایک قصبے اور اس کے نزدیک واقع ہوائی اڈے کا قبضہ چھین لیا ہے۔
یاد رہے کہ 'القاعدہ' سے منسلک 'الشباب' کے جنگجو دو سال قبل تک صومالیہ کے بیشتر جنوبی اور وسطی علاقوں پر قابض تھے اور ملک کی کمزور وفاقی حکومت کا تختہ الٹ کر صومالیہ میں شرعی نظام کے نفاذ کے لیے مسلح کاروائیاں کر رہے تھے۔
تاہم افریقی یونین، کینیا، ایتھوپیا اور صومالی افواج کی مشترکہ فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں گزشتہ دو برسوں کے دوران میں تنظیم کو اپنے زیرِ قبضہ بیشتر علاقوں سے پسپا ہونا پڑا ہے جب کہ لڑائی میں اسے بھاری جانی و مادی نقصان بھی پہنچا ہے۔
تنظیم سے وابستہ شدت پسندوں کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر پیر کو جاری کیے جانے والے پیغامات میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے برطانوی تنظیم 'اسلامک ریلیف' کو اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں کام کرنے کی دی گئی اجازت منسوخ کردی ہے۔
'الشباب' کے جنگجووں کے مطابق 'اسلامک ریلیف' درپردہ ان بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں، بشمول اقوامِ متحدہ کے 'ورلڈ فوڈ پروگرام' کی سرگرمیوں کو توسیع دے رہی تھی جن پر تنظیم نے پابندی عائد کررکھی ہے۔
دریں اثنا 'اسلامک ریلیف' کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسے 'الشباب' کے زیرِ قبضہ علاقوں میں کام کرنے کا اجازت نامہ منسوخ کیے جانے کے بارے میں باضابطہ طور پر تاحال آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔
امدادی تنظیم نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ اس کا کوئی بھی منصوبہ 'ورلڈ فوڈ پروگرام' کے تعاون سے نہیں چل رہا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے اہم ساحلی شہر 'کسمایو' سے پسپائی کے بعد 'الشباب' کے جنگجووں کے قبضے میں اب صومالیہ کا کوئی بڑا شہر یا قصبہ نہیں رہا ہے۔ تاہم تنظیم کے شدت پسند اب بھی ایک وسیع دیہی علاقے اور آبادیوں کو باہم منسلک کرنے والی اہم شاہراہوں پر قابض ہیں۔
قبل ازیں صومالیہ میں 'الشباب' سے مصروفِ جنگ افریقی یونین کے فوجی دستوں کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ افریقی یونین اور صومالی حکومت کے فوجیوں نے شدت پسندوں سے 'ونلا وین' نامی ایک قصبے اور اس کے نزدیک واقع ہوائی اڈے کا قبضہ چھین لیا ہے۔
یاد رہے کہ 'القاعدہ' سے منسلک 'الشباب' کے جنگجو دو سال قبل تک صومالیہ کے بیشتر جنوبی اور وسطی علاقوں پر قابض تھے اور ملک کی کمزور وفاقی حکومت کا تختہ الٹ کر صومالیہ میں شرعی نظام کے نفاذ کے لیے مسلح کاروائیاں کر رہے تھے۔
تاہم افریقی یونین، کینیا، ایتھوپیا اور صومالی افواج کی مشترکہ فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں گزشتہ دو برسوں کے دوران میں تنظیم کو اپنے زیرِ قبضہ بیشتر علاقوں سے پسپا ہونا پڑا ہے جب کہ لڑائی میں اسے بھاری جانی و مادی نقصان بھی پہنچا ہے۔