شام کے دارالحکومت کی حدود سے باہر حزب مخالف کے محصور علاقے میں امداد فراہم کرنے والے ایک قافلے پر حملہ کیا گیا، جس دوران شامی عرب ریڈ کراس کا ایک ڈرائیور شدید زخمی ہوا۔ امدادی گروپ نے اتوار کے روز بتایا کہ آٹھ ماہ کے دوران علاقے میں کی جانے والی یہ پہلی امدادی کارروائی تھی، جو اب رک گئی ہے۔
سینتیس ٹرکوں پر مشتمل یہ قافلہ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی، شامی عرب ریڈ کریسنٹ اور اقوام متحدہ کی مشترکہ کاوش تھی، یہ قافلہ قصبے کے شمال میں واقع ہراستہ کے علاقے میں11000 افراد کو خوراک اور ادویات کی فراہمی پر مامور تھا۔
مشرقی ہراستہ میں کام کرنے والے ایک امدادی کارکن اور مقامی کونسل کے رکن کا کہنا تھا کہ قافلے پر ہونے والے حملے سے قبل ہی امدادی کام رک چکا تھا۔
امدادی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے پر گفتگو کی، چونکہ کھلے عام ذرائع ابلاغ سے بات چیت پر پابندی عائد ہے۔
فی بک پیج پر ایک پوسٹ میں ہراستہ کی مقامی کونسل نے کہا ہے کہ قافلہ جب قصبے کے داخلی حصے پر پہنچا تو سرکاری اہل کاروں کے مطابق، مٹی بھری بوریوں کو راستے سے ہٹانے کی سہولیت دستیاب نہیں تھی۔
مقامی کونسل نے بتایا ہے کہ گھات لگا کر گولیاں چلانے والوں کی کارروائی سے پہلے ہی قافلہ واپس ہونے پر مجبور ہوا۔
حزب مخالف سے تعلق رکھنے والی کونسل نے شوٹنگ کا ذمہ دار سرکاری افواج کو قرار دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے کہا ہے کہ قافلہ ہفتے کی شام اندھیرا چھانے سے پہلے دمشق سے باہر فائرنگ کی زد میں آیا۔ سیرئن عرب ریڈ کریسنٹ نے بتایا ہے کہ ٹرک کا ایک ڈرائیور شدید زخمی ہوا، جسے عملِ جراحی کے لیے اسپتال پہنچایا گیا۔
'آئی سی آر سی' نے کہا ہے کہ وہ تب تک علاقے کی جانب اپنا دوسرا قافلہ نہیں بھیجے گی، تب تک اُسے سکیورٹی کی ضمانت نہیں مل جاتی۔