انٹیلی جنس تجزیہ کار اِن اطلاعات پر شدید تذبذب کا اظہار کر رہے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ ماہ ہونے والی ایک فضائی کارروائی میں ہو سکتا ہے کہ داعش کا لیڈر، ابو بکر البغدادی ہلاک ہوا ہو۔
داعش کے خلاف امریکی کارروائی کے ترجمان، کرنل رائن ڈلون نے کہا ہے کہ امریکہ ’’اِس وقت اِن رپورٹوں کی تصدیق نہیں کر سکتا‘‘۔
اِسی طرح، امریکی محکمہٴ دفاع کے ترجمان، نیوی کپتان جیف ڈیوس نے کہا ہے کہ فوج روسی رپورٹوں میں آنے والی اِن ’’اطلاعات کی تصدیق‘‘ نہیں کر سکتا۔
اِس سے قبل موصول ہونے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ روس نے اپنے ایک فضائی حملے میں شدت پسند تنظیم داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
جمعے کو روسی وزارتِ دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ روسی فضائیہ نے 28 مئی کو شام کے شہر رقہ کے جنوبی نواحی علاقے میں داعش کے جس اجلاس کو نشانہ بنایا تھا اس میں شدت پسند تنظیم کے 30 رہنما اور 300 جنگجو بھی مارے گئے تھے۔
روسی فوج کے مطابق داعش کے رہنما رقہ سے جنگجووں کے انخلا کی منصوبہ بندی پر غور کے لیے جمع ہوئے تھے جس کی اطلاع ملنے پر روس نے کارروائی کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات سے تصدیق ہوئی کہ ابو بکر البغدادی بھی 28 مئی کے اجلاس میں شریک تھا جو اپنے دیگر ساتھیوں سمیت فضائی حملے میں مارا گیا۔
رقہ کو داعش نے شام اور عراق کے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں پر قائم کردہ خود ساختہ خلافت کا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے جس پر قبضے کے لیے امریکہ کے حمایت یافتہ شامی جنگجو گزشتہ کئی ہفتے سے تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف کے کارکنوں نے 28 مئی کو ہونے والے روسی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں 15 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
روسی وزارتِ دفاع نے وضاحت کی ہے کہ اس نے امریکی فوج کو اس حملے سے متعلق پیشگی مطلع کردیا تھا۔
تاہم امریکہ کی سربراہی میں داعش کے خلاف قائم بین الاقوامی اتحاد کے ایک ترجمان نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہا ہےکہ وہ فی الحال روسی دعوے کی تصدیق نہیں کرسکتے۔
البغدادی کی ہلاکت کا دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب داعش کو شام اور عراق دونوں جگہ سخت دباؤ کا سامنا ہے اور اسے اپنے زیرِ قبضہ کئی علاقوں سے پسپا ہونا پڑا ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے فضائی حملوں کی آڑ میں شام اور عراق میں کئی مقامی ملیشیاؤں نے داعش کے زیرِ قبضہ علاقوں میں کامیاب پیش قدمی کی ہے جس کے باعث جنگجووں کو کئی علاقوں سے فرار ہونا پڑا ہے۔
اگر البغدادی کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی تو یہ داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ البغدادی کی ہلاکت کے دعوے اس سے قبل بھی سامنے آتے رہے ہیں لیکن ان کی کبھی تصدیق نہیں ہوسکی۔
شدت پسند رہنما کا آخری آڈیو بیان گزشتہ سال تین نومبر کومنظرِ عام پر آیا تھا جس میں اس نے اپنے جنگجووں کو عراق کے شہر موصل کا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
البغدادی نے ٹھیک تین سال قبل جون 2014ء میں موصل پر قبضے کے بعد اپنے جنگجووں کے زیرِ قبضہ شام اور عراق کے علاقوں پر اپنی خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں داعش نے اقلیتوں اور خود مسلمانوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے تھے اور انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کے باعث بین الاقوامی برادری کے کئی ملکوں نے تنظیم کے خلاف متحد ہو کر فضائی کارروائیاں شروع کی تھیں اور داعش کا مقابلہ کرنے والی شام کی مقامی ملیشیاؤں کو ہتھیار اور مالی وسائل فراہم کیے تھے۔
امریکی حکومت کے مطابق البغدادی عراق کا شہری ہے جس کا اصل نام ابراہیم عود ابراہیم علی البدری السمارائی ہے۔ امریکی حکومت نے اس کے قتل یا گرفتاری میں مدد دینے پر ڈھائی کروڑ ڈالر انعام بھی مقرر کر رکھا ہے۔