گوانتانامو بے کے امریکی حراستی مرکز سے امریکی شہری عدالت میں پیش کئے گئے پہلے قیدی کو منگل کی دوپہر عمر قید کی سزا سنائی گئی اور ان پر تین کروڑ تیس لاکھ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔
تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے 36 سالہ احمد خلفان گیلانی کو گزشتہ برس نومبر میں عدالت نے افریقی ممالک کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بم حملوں کی سازش میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیا تھا۔
1998ء میں کئے گئے ان حملوں میں 224 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 12 امریکی بھی شامل تھے۔
وکلائے صفائی کا کہنا ہے کہ وہ اِس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
اِس مقدمے کو موجودہ امریکی انتظامیہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ انتظامیہ گوانتانامو بے کے حراستی مرکز کو بند کرنا چاہتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ وہاں زیر حراست تمام افراد پر مقدمے چلائے جائیں یا انہیں رہا کر دیا جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ مقدمے امریکی قوانین کے مطابق شہری عدالتوں میں چلائے جانے چاہئیں۔ وہ گیلانی کے مقدمے کو ایک کامیابی قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگرچہ عدالت نے تشدد کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات یا گواہیوں کو کاروائی کا حصہ نہیں بننے دیا تھا اس کے باوجود مسٹر گیلانی پر جرم ثابت کر دیا گیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکی عدالتیں دہشت گردی کے مقدمات سننے کی پوری طرح اہل ہیں۔
جبکہ مخالفین اس مقدمے کو امریکی نظام کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسٹر گیلانی کو 285 میں سے ایک کے سوا تمام الزامات میں بری قرار دینے سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات سے نمٹنے کا بہتر طریقہ فوجی عدالتیں ہیں۔ کیونکہ شہری عدالتوں میں قومی سلامتی کی حساس معلومات پیش نہیں کی جاسکتیں جس سے کیس متاثر ہوتا ہے اور مبینہ دہشت گردوں کے بچ نکلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
وکیل صفائی پیٹر کیہانو نے عدالت سے مسٹر گیلانی کے لیے نرم سزا کی درخواست کرتے ہوئے تین دلائل پیش کیے تھے۔ ایک تو ان کے مطابق مسٹر گیلانی نہیں جانتے تھے کہ انہیں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، دوسرے یہ کہ امریکی حراست میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور تیسرے یہ کہ انہوں نے امریکی تفتیش کاروں کو ٹھوس خفیہ معلومات فراہم کیں۔
البتہ جج لوئس کیپلان نے ان دلائل کو رد کرتے ہوئے کہا کہ جرم اس قدر ‘بھیانک’ ہے کہ سزا میں نرمی کا نہیں سوچا جا سکتا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مسٹر گیلانی پر تشدد ہوا ہے تو اس کی مذمّت کی جانی چاہیے لیکن ان کی ذات پر جو بھی تکلیف گزری ہے وہ اس سے بہت کم ہے جو خود ان کے باعث ہزاروں لوگوں کو پہنچی ہے۔
عدالت میں11 ایسے لوگوں نے بھی بیانات دیے جو یا تو خود مذکورہ بم حملوں میں زخمی ہوئے تھے یا ان کے دوست یا رشتے دار ان حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔
ایک افریقی خاتون نے بتایا کہ ‘میں 28 برس کی عمر میں ہی بیوہ ہو گئی جب میرے تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔’ الزبتھ مایوہا نامی خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں گزشتہ 14 برس میں سکون کا ایک لمحہ بھی نصیب نہیں ہوا کیونکہ انہیں سوتے جاگتے، چلتے پھرتے ‘سر کٹی اور بنا بازو اور ٹانگوں کی لاشیں نظر آتی ہیں۔’
انہوں نے حملوں میں بیوہ ہونے والی دیگر افریقی خواتین کا حال بتاتے ہوئے کہا کہ ‘ہم چلتی پھرتی نظر آتی ہیں لیکن دراصل ہم مردہ ہیں۔’ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ساتھ کی ایک بیوہ خاتون نے حالات سے تنگ آکر اور ڈپریشن کی وجہ سے حال ہی میں اپنے دو چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر خود کشی کر لی ہے۔
جبکہ کینیا کے شہر نیروبی سے تعلق رکھنے والے جیمز اڈیڈا نے کہا کہ اگر وہ جج ہوتے تو مسٹر گیلانی کو سزا میں جہنم واصل کر دیتے۔
عدالت میں موجود مسٹر گیلانی کا چہرہ یہ تمام بیانات سنتے ہوئے سنجیدہ مگر تاثرات سے عاری تھا۔ ان کے وکلاء کے مطابق مسٹر گیلانی کو ان بم حملوں سے ہونے والی تباہی کا بے حد افسوس ہے لیکن وہ القاعدہ کے ارکان کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں کیونکہ وہ خود کوئی شدت پسند جہادی نہیں اور نہ ہی انہیں امریکیوں سے نفرت ہے۔ وکلائے صفائی کے مطابق مسٹر گیلانی وہ نہیں جس کی تصویر استغاثہ نے پیش کی ہے۔
مسٹر گیلانی افریقہ میں بم حملوں کے بعد افغانستان چلے گئے تھے جہاں امریکی حکومت کے مطابق انہوں نے اسامہ بن لادن کے باڈی گارڈ اور باورچی کی حیثیت سے بن لادن کے قریبی حلقوں میں وقت گزارا۔
انہیں 2004ء میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔