عالمی ادارہ صحت "ڈبلیو ایچ او" نے متنبہ کیا ہے کہ حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ دنیا بھر میں معمر افراد کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی دیکھ بھال کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اگر معمر افراد میں مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو اس سے مستقبل میں دنیا کو معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ شدید نوعیت کے طبی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی یہ رپورٹ برطانوی طبی جریدے ’دی لینسٹ‘ میں شائع کی گئی۔
بڑھتی عمر کے باعث انسان میں بیماریوں کا بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات ان بیماریوں کی وجہ سے معمر افراد نہ صرف خود پر بلکہ معاشرے پر بھی بوجھ بن جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 2050ء تک دنیا بھر میں دو ارب سے زائد آبادی 60 برس یا اس سے زائد عمر کی ہوگی۔ یہ تعداد ابھی 84 کروڑ دس لاکھ ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ معمر افراد کی سب سے بڑی تعداد ترقی پذیر ممالک میں آباد ہوگی۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں عام لوگوں کی عمر میں اضافے کی ایک وجہ بیماریوں کی روک تھام بھی ہے۔ مثال کےطور پر ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض کو سستی اور بآسانی دستیاب ادویات کے باعث ختم کرنے یا روکنے کے باعث بھی عام انسان کی عمر میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت میں معمر افراد کی صحت اور دیکھ بھال کے شعبے سے منسلک آئیلو آروجو کا کہنا ہے کہ افریقی ممالک میں اوسط عمر 60 برس ہے۔ ان کے مطابق افریقی ممالک میں معمر افراد کی اموات کی بڑی وجہ دل کے امراض اور فالج جیسے امراض ہیں۔ ان کے مطابق ایسے معاشروں میں اگر معمر افراد فالج کا شکار ہو جائیں تو نہ صرف خود پر بلکہ دوسروں پر بھی بوجھ بن جاتے ہیں۔
"دل اور فالج جیسے امراض سے بچاؤ کا ایک طریقہ بلڈ پریشر کو نارمل رکھنا ہے۔ مگر افریقہ جیسے ترقی پذیر خطے میں اکثریت کو یہ ہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ بلڈ پریشر کا شکار ہیں۔"
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق کسی بھی معاشرے میں معمر افراد کو اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیئے۔ انہیں زیادہ جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیئے، سگریٹ و شراب نوشی سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ ان افراد کے لیے اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔