عمومی تاثر کے برخلاف کرونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران دنیا کی آبادی کم ہوئی ہے۔ ایک نئے سرکاری جائزے کے مطابق آسٹریلیا کو مستقبل میں معمر افراد کی تعداد میں اضافے اور جوان آبادی کے کم ہونے کا چیلنج درپیش ہو گا۔
وآئس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلوی حکومت مختلف نسلوں کے درمیان یہ تقابلی جائزہ ہر پانچ سال بعد کرتی ہے۔
اس رپورٹ میں ملک میں آبادی کے سست رفتاری سے بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جس کی وجہ شرح پیدائش اور امیگریشن دونوں میں کمی کو بتایا گیا ہے۔
ہر پانچ سال بعد کئے جانے والے اس تقابلی جائزے سے اگلی چار دہائیوں میں معیشت کی صورت حال جانچنے اور اسی حساب سے بجٹ مختص کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس وبا کے معاشی اثرات کی شدت آنے والے برسوں میں بھی محسوس ہو گی۔ اس کے ساتھ عمر رسیدہ شہریوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر ہیلتھ کیئر کے اخراجات میں اضافے کی بھی پیش گوئی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت آسٹریلیا میں 65 سال سے زیادہ کی عمر کے ہر فرد کے مقابلے میں چار افراد روزگار کمانے کی عمر میں ہیں، جب کہ سال 2060 تک یہ تعداد گھٹ کر ایک کے مقابلے میں دو اعشاریہ سات تک پہنچ جائے گی جس سے عوامی فلاح کے معاشی منصوبے مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں عمر رسیدہ آبادی کی صحت اور مالی معاونت کی فنڈنگز ملک میں بر سر روزگار آبادی کے ادا کردہ ٹیکسز کی رقوم سے ہوتی ہے۔
آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس چیلنج سے نمٹنے کی اس کوشش میں ہے کہ مستقبل میں کمانے والی آبادی پر ٹیکسوں کا بوجھ بھی نہ بڑھے اور معمر افراد کی فلاح و بہبود کے پروگرامز میں بھی خلل نہ آئے۔
ملکی خزانے کے انچارج اور رکن پارلیمنٹ جاش فرائڈنبرگ کا کہنا ہے کہ ' پانچویں انٹر-جنریشنل رپورٹ' ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ ملکی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ہمارا قرضہ بڑھ رہا ہے مگر یہ بین الاقوامی معیار کے مطابق اب بھی کم ہے اور مستحکم ہے۔ مگر مستقبل کا ایک بڑا چیلنج ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ ہمیں ڈھلتی عمر کے افراد کی بڑھتی تعداد اور کووڈ کے دور رس اثرات سے نمٹنے کے لئے آسٹریلیا کی پیداواری قوت بڑھانے کی ضرورت ہے'۔
رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی ابادی اس وقت 25 کروڑ ہے جو 2060 تک بڑھ کر 39 کروڑ ہو جائے گی۔ یہ تعداد گزشتہ لگائے گئے تخمینوں سے کم ہے۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مستقبل میں بڑھتی ہوئی آبادی کی پیش گوئی میں کمی لائی گئی ہے۔ آبادی میں کمی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آسٹریلوی معیشت کا حجم کم ہو جائے گا اور ملک میں حکومتی امداد کی مستحق عمر رسیدہ آبادی کا تناسب بڑھ جائے گا۔
دوسرے ممالک سے ہجرت کر کے آنے والے امیگرنٹس کی وجہ سے نہ صرف معاشی ترقی کی رفتار بڑھ سکتی ہے بلکہ بڑھتی ہوئی بزرگ آبادی کے اثرات پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ مگر کرونا وبا پر قابو پانے کی کوششوں میں گزشتہ سال مارچ کے مہینے سے آسٹریلیا نے اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے آسٹریلیوی امیگریشن بھی بالکل رکی ہوئی ہے۔
حکومتی اندازوں کے مطابق سرحدیں کھل جانے کے بعد بھی ملک میں امیگرنٹس کی تعداد میں خاطر خواہ اضافے کا امکان نہیں۔