کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا عمل پورا ہوگیا ہے۔ انتخابات کے نتیجے میں ’نو منتخب سٹی کونسل‘ تشکیل پائے گی اور وہی ’ایوان‘ میں بیٹھ کر شہر کے امور اور تمام معاملات نمٹائے گی۔ یہ’ ایوان‘ کہاں ہے اور کس حالت میں ہے یہ شاید کم لوگوں کو پتہ ہو۔
درحقیقت یہ ایوان ایم اے جناح روڈ پر قائم ایک صدی قدیم عمارت ہوگی جسے برسوں سے ’کے ایم سی بلڈنگ‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
عمومی طور پر حکومتی اور سرکاری ایوان ارکان کے لئے جدید سہولتوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ لیکن، کے ایم سی کا ایوان ارکان کے ساتھ ساتھ انگنت لوگوں کے لئے ایک نئے امتحان کا باعث ہوگا جبکہ سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ’نیا بلدیاتی ایوان ۔۔ارکان کے صبر کی آزمائش بھی ہوسکتا ہے۔ ۔۔کیوں کہ یہاں مسائل گمبھیر اور اس کے حل سنگین ہوں گے۔‘
بلدیاتی حکومت کا ایوان یا مچھلی بازار
نو منتخب بلدیاتی حکومت کے 100 سال سے زیادہ قدیم ایوان کے اجلاس انگریزی راج میں تعمیر ہونے والی عمارت کے ایک ہال میں منعقد ہوا کریں گے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کا میئر اور ڈپٹی میئر بھی یہیں اپنے فرائض منصبی انجام دے گا۔ پہلے اجلاس کے وقت عمارت کا ہال ’مچھلی بازار کا منظر‘ پیش کرے گا، کیوں کہ ہال میں 255 ارکان کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ اجلاس میں پہلے ہی روز 308 ارکان براجمان ہوں گے۔
دو سو نو ارکان تو 5دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ خواتین، مزدور، طلباء اور اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے 53 ارکان اس کے علاوہ ہیں۔ یہ ارکان بھی ظاہر ہے اسی حال میں بیٹھیں گے اور یوں اس ’مچھلی بازار‘ میں کسی کو کان پڑی آواز بھی شاید مشکل ہی سے سنائی دے۔
’کیا ہال میں مزید گنجائش پیدا کرنے کے لئے تعمیراتی کام ہوسکتا ہے؟‘
اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ڈائریکٹر کراچی میٹروپولیٹن غفران احمد کا کہناہے ’سٹی کونسل ہال میں نشستوں کیلئے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن، چونکہ یہ عمارت ہمارا ورثہ ہے لہٰذا بلڈنگ کی بناوٹ میں کوئی تعمیری تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔‘
غفران احمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’عمارت کا افتتاح 1933 میں ہوا، اس وقت اراکین کی تعداد 58 تھی۔ لیکن ہربار نئی منتخب کونسل کے بعد اراکین کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔آخری مرتبہ عمارت کی تزئین و آرائش کا کام 2001 میں ہوا تھا اور اس وقت 255 منتخب نمائندوں کیلئے نشستوں کا انتظام کیا تھا۔ مگر اب یہ تعداد 308 ہوجائے گی جبکہ نشستوں کے لئے مزید گنجائش پیدا نہیں ہوسکتی۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سٹی کونسل کی عمارت سندھ اسمبلی کی عمارت جیسی دلکش نہیں اراکین کو کم جگہ میں ہی خود کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔ حتیٰ کہ صحافیوں کے لئے باقاعدہ پریس گیلری بھی نہیں ہوگی۔
عمارت چونکہ ایم اے جناح روڈ جیسی شہر کی مصروف ترین شاہراہ پر قائم ہے اور سارا دن، پورا سال اور ہفتے بھر یہاں ٹریفک کی آمدورفت جاری رہتی ہے لہذا ارکان کی گاڑیوں کے لئے پارکنگ کا مسئلہ بھی نہایت گمبھیر ہوگا۔
کیا نئی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے؟
اس سوال کا جواب بھی مثبت نہیں۔ ٹیکنیکل ڈائریکٹر جنرل کے ایم سی نیاز سومرو نے سٹی کونسل کی مجوزہ نئی عمارت کے بارے میں بتایا کہ انہیں اس مقصد کیلئے کبھی کوئی فنڈز نہیں ملے، نومنتخب سٹی کونسل چاہے تو اپنی پسند کی نئی عمارت تعمیر کرسکتی ہے۔ رہی بات پرانی عمارت کی تو یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہے، اسے کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔