رسائی کے لنکس

جنگ بندی کے بعد لبنانی اور اسرائیلی خاندانوں کی گھروں کو واپسی؛ 'ہماری دنیا ایک سیکنڈ میں الٹ گئی'


زینہ ردا جوہری، 28 نومبر 2024 کو بالبیک میں اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے سے اپنے والد کی تصویر برآمد کرنے کے بعد رد عمل کا اظہار کر رہی ہیں۔
زینہ ردا جوہری، 28 نومبر 2024 کو بالبیک میں اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے سے اپنے والد کی تصویر برآمد کرنے کے بعد رد عمل کا اظہار کر رہی ہیں۔

  • جواہری خاندان کی یہ کہانی اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں جنگ بندی کے بعد لبنان کے مختلف حصوں میں اپنے تباہ حال گھروں کو لوٹنے والے ہزاروں خاندانوں کے کرب کی گونج ہے۔
  • ’دل کا درد جس سے ہم کبھی بھی بحال نہیں ہوں گے۔'
  • ادھر لبنان کی جنوبی سرحد کے پار اسرائیل کے شمالی علاقوں میں لوگوں کو واپسی پر کئی تکالیف کا سامنا ہے۔
  • حزب اللہ کے سربراہ نعیم قاسم نے جمعے کے روز اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے لبنانی فوج کے ساتھ قریبی رابطہ قائم رکھنے کا عہد کیا ہے.
  • عالمی بینک نے اپنے ابتدائی تخمینے میں کہا ہے کہ جنگ کے دوران لبنان میں 99,000 گھر تباہ ہوگئے ہیں اور ان کی بحالی کے لیے 2.8 ارب ڈالرز درکار ہوں گے۔
  • اسرائیل کی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں خاص طور پر سرحدی مقامات پر بسنے والی برادریوں کو واپس لایا جائے۔

مشرقی لبنان کے شہر بالبیک میں جواہری خاندان کے افراد ایک گہرے گڑھے کے گرد جمع تھے، جہاں کبھی ان کا گھر کھڑا تھا۔ تباہی کے احساس سے سب آنکھیں اشکبار تھیں۔

جواہری خاندان کی یہ کہانی اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں جنگ بندی کے بعد لبنان کے مختلف حصوں میں اپنے تباہ حال گھروں کو لوٹنے والے ہزاروں خاندانوں کے کرب کی گونج ہے۔

ادھر لبنان کی جنوبی سرحد کے پار اسرائیل کے شمالی علاقوں میں لوگوں کو واپسی پر کئی تکالیف کا سامنا ہے۔

بالبیک میں گھڑے کے پاس کھڑی لینا جوہاری نے ٹوٹتی ہوئی آواز میں کہا،"یہ دل توڑ دینے والا منظر ہے۔ دل کا درد جس سے ہم کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔"

"ہماری دنیا ایک سیکنڈ میں الٹ گئی۔"

لینا کا گھر جو کہ نسلوں سےخاندان کے اجتماع کا مقام تھا، یکم نومبر کو ایک اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا۔

اب اس گھر کی جگہ بکھری ہوئی یادیں اور ایک بار متحرک زندگی کے بٹے ہوئے ٹکڑے باقی رہ گئے ہیں۔

لبنان کے جنوب میں ایک شہری جلال ناصر اپنے تباہ شدہ کیفے کے باہر کھڑے تھے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ ان کے احساسات "ناقابل بیان" ہیں۔

پھر بھی انہوں نے جنگ بندی کو ایک جیت قرار دیتے ہوئے کہا،" کم از کم ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں۔"

عالمی بینک نے اپنے ابتدائی تخمینے میں کہا ہے کہ جنگ کے دوران لبنان میں 99,000 گھر تباہ ہوگئے ہیں اور ان کی بحالی کے لیے 2.8 ارب ڈالرز درکار ہوں گے۔

ادھر حزب اللہ کے سربراہ نعیم قاسم نے جمعے کے روز اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے لبنانی فوج کے ساتھ قریبی رابطہ قائم رکھنے کا عہد کیا ہے۔

جنگ بندی کے نفاذ کے بعد اپنے پہلے خطاب میں حزب اللہ کے رہنما نعیم قاسم نے کہا کہ حزب اللہ نے اس معاہدے کی منظوری میدان جنگ میں مضبوط مزاحمت کے ساتھ دی ہے اور "ہمارے سر (اپنے) دفاع کے حق کے ساتھ بلند ہیں۔

لبنان کی فوج اور حزب اللہ نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ اس نے لتانی دریا پر فضائی حملہ کرکے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے بھی ایسے ہی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان پھچلے سال اکتوبر میں غزہ جنگ کے ایک روز بعد شروع ہونے والی لڑائی نے لبنان کے کئی حصوں کو تباہ کر دیا ہے جبکہ سینکڑوں خواتین اور بچوں سمیت 4,000 افراد کو ہلاک ہوئے ہیں۔ لبنان میں جنگ کے دوران 12 لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے۔

بدھ کو امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں اسرائیل اور لبنان میں طے پانے والی جنگ بندی کا نفاذ شروع ہوا جس کے بعد لبنان اور اسرائیل کی سرحدی علاقوں سے کوچ کرنے والے خاندانوں نے اپنے اپنے گھروں کا رخ کرنا شروع کیا۔

دوسری طرف اسرائیل کے شمال میں قصبے کبوتز ملکیا کی برادری سے تعلق رکھنے والے ڈین سویٹ لینڈ نے واپسی پر اپنی گلی کو بیاباں پایا۔

پہاڑی کی چوٹی پر بنایا گیا یہ سرحدی قصبہ لوگوں کے ایک سال پہلے کے انخلا کے بعد خالی پڑا ہے۔

ایک طرف بچوں کا ڈے کیئر بند ہے تو دوسری جانب گھر گندے پڑے ہیں۔ کہیں حزب اللہ کے راکٹوں کے گرنے سے راکھ نظر آرہی ہے۔

لوگ جنگ بندی کے بعد جشن منانے کے موڈ میں بلکل نظر نہیں آتے۔

خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق سویٹ لینڈ نے کہا،" جنگ بندی بکواس ہے۔"

ایک مالی اور کیبوتز کے سکیوریٹی اسکواڈ کے رکن، سویٹ لینڈ نے کہا،" کیا آپ مجھ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں اپنے دوستوں کو فون کروں اور کہوں کہ تمام خاندانوں کو گھروں کو لوٹ آنا چاہیے۔ نہیں۔"

اسرائیل کی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں زندگی معمول کی ڈگر پر واپس آجائے، خاص طور پر سرحدی مقامات پر بسنے والی برادریوں کو واپس لایا جائے کیونکہ ان کے ہونے سے اسرائیل کا سرحد پر دعویٰ مضبوط ہوتا ہے۔

لیکن حزب اللہ کا خوف، اقوام متحدہ کی امن فورس پر جنگ بندی پر عمل کے معاملے پر عدم اعتماد، اسرائیلی حکومت پر غصہ اور حکومت کی دوسری جگہوں پر لوگوں کی زندگیوں کو از سر نو تعمیر کرنے کی پالیسی نے ان برادریوں کو فوراً واپس آنے سے روک رکھا ہے۔

اسرائیل کے شمال سے لڑائی کے دوران 45,000 لوگوں کا انخلا ہوا ۔ یہ انخلا حزب اللہ کی جانب سے 8 اکتوبر 2023 کو غزہ میں اسرائیل سے برسر پیکار تنظیم حماس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر فائرنگ سے شروع ہوا تھا۔

اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی اسرائیل اور حماس کی غزہ میں جاری جنگ کا شاخسانہ ہے۔

گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملے سے شروع ہونے والی جنگ میں 14 ماہ کے دوران غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق 44,200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے اسرائیل پر حملے میں تقریباً 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جب کہ جنگجوؤں نے 250 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔

(اس خبر میں شامل مواد اے پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے)

فورم

XS
SM
MD
LG