جنگلی حیات کے تحفظ پر کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم (سی آئی ٹی آئی ایس) نے کہا ہے کہ گزشتہ سال براعظم افریقہ میں 20 ہزار سے زائد ہاتھیوں کا شکار کیا گیا۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ متواتر تیسرا سال ہے کہ اسی تعداد میں ہاتھی افریقہ میں شکار ہورہے ہیں اور غیر قانونی شکار میں تیزی سے اضافہ گزشتہ ایک دہائی میں دیکھا گیا جو کہ اس جانور کی آبادی کم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
تنظیم کے سیکرٹری جنرل جان اسکنلون کا کہنا تھا کہ ہاتھی دانت کے لیے شکار کے باعث افریقی ہاتھی کو خطرہ لاحق رہے گا۔
’’ہم ابھی بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہاتھیوں کی آبادی کم ہورہی ہے جس کا مطلب ہے کہ قدرتی پیدائشی عمل کی نسبت ان کا غیرقانونی شکار زیادہ ہورہا ہے۔‘‘
تنظیم کی رپورٹ میں گزشتہ سال بڑے پیمانے پر پکڑے گئے ہاتھی دانت کا بھی بتایا گیا۔ کینیا، تنزانیہ اور یوگنڈا وہ افریقی ممالک ہیں جہاں سے سب سے زیادہ ہاتھی دانت پکڑے گئے۔
جان اسکنلون کا کہنا تھا ’’یہ ایک سنگین جرم ہے۔ ضروری ہے کہ اسے سنگین جرم کی طرح لیا جائے اور ایسی تراکیب استعمال کی جائیں جو کہ منشیات اور انسانوں کی اسمگلنگ جیسے سنگین جرائم کے لیے انسداد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تو ہاتھی دانت کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائی اچھی ہے مگر’’ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہوگا۔ تلاش کرنا ہوگا اس کے پیچھے کون ہے؟ کس کو یہ چاہیے؟ کون اس کے ٹھیکے دیتے ہیں؟ کون ان جانوروں کو پکڑتا ہے۔‘‘
تنظیم کی طرف سے افریقہ میں 51 ایسے مقامات کی نشاندہی کی گئی جہاں غیر قانونی شکار کیا جاتا ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ متواتر تیسرا سال ہے کہ اسی تعداد میں ہاتھی افریقہ میں شکار ہورہے ہیں اور غیر قانونی شکار میں تیزی سے اضافہ گزشتہ ایک دہائی میں دیکھا گیا جو کہ اس جانور کی آبادی کم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
تنظیم کے سیکرٹری جنرل جان اسکنلون کا کہنا تھا کہ ہاتھی دانت کے لیے شکار کے باعث افریقی ہاتھی کو خطرہ لاحق رہے گا۔
’’ہم ابھی بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہاتھیوں کی آبادی کم ہورہی ہے جس کا مطلب ہے کہ قدرتی پیدائشی عمل کی نسبت ان کا غیرقانونی شکار زیادہ ہورہا ہے۔‘‘
تنظیم کی رپورٹ میں گزشتہ سال بڑے پیمانے پر پکڑے گئے ہاتھی دانت کا بھی بتایا گیا۔ کینیا، تنزانیہ اور یوگنڈا وہ افریقی ممالک ہیں جہاں سے سب سے زیادہ ہاتھی دانت پکڑے گئے۔
جان اسکنلون کا کہنا تھا ’’یہ ایک سنگین جرم ہے۔ ضروری ہے کہ اسے سنگین جرم کی طرح لیا جائے اور ایسی تراکیب استعمال کی جائیں جو کہ منشیات اور انسانوں کی اسمگلنگ جیسے سنگین جرائم کے لیے انسداد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تو ہاتھی دانت کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائی اچھی ہے مگر’’ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہوگا۔ تلاش کرنا ہوگا اس کے پیچھے کون ہے؟ کس کو یہ چاہیے؟ کون اس کے ٹھیکے دیتے ہیں؟ کون ان جانوروں کو پکڑتا ہے۔‘‘
تنظیم کی طرف سے افریقہ میں 51 ایسے مقامات کی نشاندہی کی گئی جہاں غیر قانونی شکار کیا جاتا ہے۔