رسائی کے لنکس

گھریلو تشدد کی شکار افغان خواتین کا اگلا ٹھکانہ جیل


گھریلو تشدد کی شکار افغان خواتین کا اگلا ٹھکانہ جیل
گھریلو تشدد کی شکار افغان خواتین کا اگلا ٹھکانہ جیل

افغانستان کے ایک علاقے میں گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والوں کے پاس تکلیف دہ صورت حال کے انتخاب کے سوا کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔ وہ یا تو اپنے گھر پر رہ کر مزید زیادتیوں کا سامنا کریں یا پھر اگر وہ گھر سے راہ فرار اختیار کریں تو انہیں اس سے بھی خراب ٹھکانہ ملتا ہے یعنی مقامی جیل یا حراستی مرکز، جن کے بارے میں خواتین کے حقوق سے متعلق سرگرم کارکنوں کا کہناہے کہ وہاں انہیں اکثر اوقات گھر سے زیادہ تشدد اور زیادتیوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔

افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں کسی کو بھی یہ تکلیف دہ انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ وہ گھر کے ہولناک ماحول سے فرار ہوکر خود کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے پر تیار ہوجائے۔

پروانہ جو اکثر ایسے واقعات کا سامناکرتی ہیں، کہتی ہیں کہ حکومت نے ایسی کوئی محفوظ پناہ گاہ قائم نہیں کی جہاں ہم بے گھر خواتین کو رکھ سکیں چنانچہ ہمیں انہیں مجبوراً جیل بھیجنا پڑتا ہے یا پھر ان کی مرضی اور منشاء کے خلاف انہیں اپنے گھروں کو واپس کردیا جاتا ہے۔

پروانہ قندھار محکمہ پولیس کے خواتین کے حراستی مرکز کی انچارچ ہیں۔

قانون کے تحت حراستی مرکز میں خواتین کو صرف ایک مہینے تک رکھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ پروانہ کہتی ہیں کہ ایک مہینے کے بعد حراستی مرکز میں بند خواتین کو یہ چناؤ کرنا ہوتا ہے کہ یا تو وہ جیل جائیں یا اپنے گھر۔

اکثر خواتین اپنے گھر واپسی پر مزید مارپیٹ اور زیادتیوں کے ڈر سے جیل جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔

اکثر صورتوں میں گھر واپسی کے فیصلے کا نتیجہ ہلاکت کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔

صوبہ قندھار کے خواتین کے امور سے متعلق محکمے کی سربراہ رقیہ اچکزئی کہتی ہیں کہ چند دن پہلے ایک نوجوان خاتون کو اس کے گھر واپس بھیجا گیا تھا، لیکن اب سرکاری اہل کاروں کو اس کی قبر ملی ہے۔

اس کی ہلاکت پراسرار حالات میں ہوئی اور پولیس نے اس سلسلے میں کوئی تفتیش بھی نہیں کی۔

اچکزئی کا کہناہے کہ خواتین کے امور کی وزارت نے تین سال قبل خواتین کے لیے ایک پناہ گاہ تعمیر کرنے کے لیے فنڈ مختص کیے تھے ، لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر وہ ابھی تک تعمیر نہیں کی جاسکی۔

غیر سرکاری تنظیموں نے بے سہارا خواتین کے لیے کچھ پناہ گاہیں قائم کررکھی ہیں۔ لیکن گذشتہ سال افغان حکومت نے اعلان کیا کہ وہ ایسی تمام پناہ گاہوں کو اپنے کنٹرول میں لے لے گی، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔

ان خدشات کے باوجود، قندھار حکومت کے انسانی حقوق کمشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر شمس الدین تنویر کہتے ہیں کہ حکومت انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں پر عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے۔ اور یہ کہ گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو جیل بھیجا جانا غیر قانونی ہے۔

XS
SM
MD
LG