رسائی کے لنکس

آج افغان خواتین خود کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں: تجزیہ کار


طالبان، برقعے کا سہارا
طالبان، برقعے کا سہارا

’دس برسوں میں افغان معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ لاکھوں لڑکیوں نے اسکول جانا شروع کیا ہے ۔ اُن پر اب برقعہ پہننے اور گھر سے نکلتے ہوئے کسی مرد کو ساتھ لے کر جانے کی پابندی نہیں‘

’نیوز ایکشن ایڈ‘ کی سربراہ اینجلی کواترا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کےخاتمے کے ایک عشرے بعد خواتین خود کو زیادہ محفوظ خیال کرتی ہیں۔

افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فورسز کی موجودگی کے دس سال پورے ہونے کے موقعے پرجمعے کو’ وائس آف امریکہ‘ کے’راؤنڈ ٹیبل‘ پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے، اینجلی کواترا کا کہنا تھا کہ خواتین امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں۔ اُن کے بقول،’10میں سے چار خواتین ایسی ہیں جو سمجھتی ہیں کہ افواج کےانخلا کےبعدافغان عورتوں کے لیے بدترین جگہ ہوسکتی ہے اور دس میں سے نو ایسی خواتین ہیں جو طالبان کےدوبارہ اقتدار میں آنے سے خوفزدہ ہیں‘۔

افغانستان میں خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے، نیوز ایکشن ایڈ کی سربراہ نے کہا کہ اِن دس برسوں میں افغان معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ لاکھوں لڑکیوں نے اسکول جانا شروع کیا ہے ۔ اُن پر اب برقعہ پہننے اور گھر سے نکلتے ہوئے کسی مرد کو ساتھ لر کر جانے کی پابندی نہیں۔

اُن کے الفاظ میں، ’اِس وقت افغانستان کی پارلیمنٹ میں خواتین27فی صد نشستوں پر براجمان ہیں، اور اس تعداد کا باقی دنیا سے موازنہ کیا جائے تویہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ برطانیہ میں بھی یہ تعداد 22فی صد ہے۔ اِس کے علاوہ افغانستان میں خواتین گورنر بھی موجود ہیں‘۔

ایسے وقت میں جب امریکہ اور اتحادی فوجوں کے مجوزہ انخلا کی صورت میں بیشتر مبصرین افغانستان میں عدم استحکام ، یہاں تک کہ خانہ جنگی کے خدشات محسوس کررہے ہیں، یہ معلوم کرنے پر کہ آنے والے وقتوں میں خواتین کےلیے افغانستان کتنا محفوظ ہوتا، اینجلی نے کہا کہ خدشات بہت زیادہ ہیں۔ اُنھوں نے یاد دلایا کہ طالبان کے وقت میں لاؤڈ اسپیکروں پر یہ اعلان ہوا کرتا تھا کہ’ عورتوں کی جگہ گھر یا قبر‘۔ لہٰذا، وہ خوفزدہ ہیں کہ کہیں دوبارہ طالبان اُس مقام پر نہ پہنچ جائیں۔

اینجلی کواترا کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ بین الاقوامی برادری ، افغان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت میں خواتین اور اُن کے حقوق کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ’2014ء کے بعد کی صورتِ حال واضح نہیں، ہر طرف خدشات ہی خدشات ہیں‘۔

دوسری طرف، صوبہٴ پکتیا کے گورنر ڈاکٹر اکرم کا کہنا تھا کہ گذشتہ دس برسوں کے دوران، نیٹو اور افغانستان میں معاشی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اُن کے بقول، ’آج لوگوں کو اچھا روزگار میسر ہے۔ بہتر سڑکیں، اسپتال اور اسکول کھل گئے ہیں۔ لڑکیاں اسکول جارہی ہیں اور پھر، ملک میں ایک منتخب حکومت ہے‘۔

ڈاکٹر اکرم نے سکیورٹی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اِس سلسلےمیں ابھی بہت کوششوں کی ضرورت ہے۔ اُن کے بقول، سکیورٹی کے ضمن میں مشکلات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

XS
SM
MD
LG