رسائی کے لنکس

اضافی امریکی فوجی تعینات رکھنے کا فیصلہ خوش آئند ہے: اشرف غنی


پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے ذمہ دارانہ انخلا کی حمایت کی ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنے امریکی ہم منصب براک اوباما کے اُس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس میں افغانستان میں آئندہ سال یعنی 2017ء میں بھی 8400 امریکی فوجی تعینات رکھنے کا کہا گیا ہے۔

صدر اشرف غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ پر ایک بیان میں کہا کہ افغانستان میں اضافی فوجی تعینات رکھنے سے متعلق صدر براک اوباما کا فیصلہ خوش آئند ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان جاری شراکت کا اظہار ہے۔

اُدھر پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے ذمہ دارانہ انخلا کی حمایت کی ہے۔

نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن خطے میں امن کے لیے ضروری ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے حصول کے راستے اور طریقہ کار کے تعین کے لیےتمام افغان دھڑے بشمول طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔

پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے اب بھی سب سے موذوں راستہ مذاکرات ہی ہیں اور وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ پاکستان افغانوں کی زیر قیادت امن عمل کی حمایت کے اپنے عزم پر قائم ہے۔

اس وقت افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے لگ بھگ 12 ہزار اہلکار تعینات ہیں جن میں سے 9800 امریکی فوجی ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان میں حالیہ مہینوں میں طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور کابل سمیت ملک کے مختلف حصوں میں پرتشدد حملوں میں تیزی آئی ہے۔

امریکہ کے صدر کی طرف سے اس سے قبل اعلان کردہ منصوبے کے تحت کہا گیا تھا کہ افغانستان میں اس وقت تعینات 9800 امریکی فوجیوں کی تعداد کو 2016ء کے اختتام تک کم کر کے 5500 کر دیا جائے گا۔

لیکن بدھ کو صدر اوباما نے اعلان کیا کہ اب 2017ء میں بھی افغانستان میں 8400 فوجی تعینات رہیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ افغانستان میں تعینات امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن کی سفارشات کی روشنی میں کیا گیا۔

افغانستان میں مقامی فورسز کو جہاں طالبان جنگجوؤں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کا سامنا ہے وہیں وہ ’داعش‘ کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔

افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بھی تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس مقصد کے لیے گزشتہ سال کے اواخر میں افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں کی شمولیت سے قائم کیے گئے چار ملکی گروپ کی کوششیں سود مند ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔

21 مئی کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کے مارے جانے کے بعد پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس حملے سے افغان امن عمل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو دھچکا لگا۔

تاہم ایک روز قبل ہی منگل کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ایک بیان میں کہا کہ اُن کا ملک افغانستان میں مصالحتی کوششوں میں سنجیدگی سے سہولت فراہم کر رہا ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ اُن کا ملک کسی کو بھی اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دے گا۔

XS
SM
MD
LG