طالبان نے پیر کی صبح صوبہ غزنی کے مشرقی حصے میں فوج اور پولیس کی ایک نئی قائم کی جانے والی چوکی پر حملہ کر کے کم از کم 13 فوجیوں اور پولیس اہل کاروں کو ہلاک کر دیا۔
افغان حکام وقتاً فوقتاً خوگیان ضلع میں حملوں کے مقامات پر تازہ کمک بھیجتے رہتے ہیں لیکن گھات لگا کر حملے کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اتوار کی رات کو طالبان نے جنوبی قندھار میں حملہ کر کے کم ازکم 4 پولیس اہل کاروں کو ہلاک کر دیا۔
یہ حملے ایک ایسی صورت حال میں ہو رہے ہیں کہ تقریباً افغانستان کے آدھے حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کرنا ان کا روزمرہ کا معمول ہے۔
طالبان کابل کی افغان حکومت کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی ایک کٹھ پتلی کے طور پر دیکھتے ہیں اور بار بار کی اپیلوں کے باوجود اس کے ساتھ بات چیت سے انکار کر چکے ہیں۔
غزنی کے صوبائی گورنر کے ترجمان عارف نوری نے کہا ہے کہ پیر کی صبح چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے میں 7 فوجی اور 6 پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے غزنی اور قندھار پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
جس نئی چوکی پر حملہ ہوا ہے، اسے طالبان کی سپلائی لائن کاٹنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ گورنر کے ترجمان نے بتایا کہ طالبان نے چوکی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اہل کاروں کے حملے کی زد میں آنے کے فوراً بعد امدادی کمک بھیجی لیکن طالبان نے کم ازکم چار بار ان کا راستہ روکا۔
افغانستان کے 34 صوبوں میں سے غزنی وہ واحد صوبہ ہے جہاں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اکتوبر کے پارلیمانی انتخابات نہیں ہو سکے تھے۔
گورنر قندھا ر کے ترجمان عزیز احمد عزیز نے بتایا کہ طالبان کے حملے میں 4 پولیس اہل کاروں کی ہلاکتوں کے علاوہ 2 اہل کار زخمی بھی ہوئے۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں 6 عسکریت پسند بھی مارے گئے اور حملہ پسپا ہونے کے بعد عسکریت پسند علاقے سے فرار ہو گئے۔