رسائی کے لنکس

طالبان سپریم لیڈر اخوندزادہ نے اخلاقیات کا قانون منظور کر لیا


کابل میں افغان خواتین خوراک کے راشن کے انتظار میں جب کہ ایک طالبان جنگجو پہرہ دے رہا ہے ، فائل فوٹو
کابل میں افغان خواتین خوراک کے راشن کے انتظار میں جب کہ ایک طالبان جنگجو پہرہ دے رہا ہے ، فائل فوٹو
  • اس قانون کا نفاز افغان شہریوں پر حکومت کے کنٹرول میں اضافہ کر سکتا ہے ۔
  • وزارت انصاف نے بدھ کو اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا کہ طالبان کے سپریم لیڈر، ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اس قانون کی منظوری دےدی ہے۔
  • اخلاقیات کے اس قانون میں اب ان امور پر عمل درآمد کے بارے میں عملے کے اختیارات کی وضاحت کی گئی ہے جو سماجی ربط ضبط سے لے کر نجی زندگیوں اور لباس تک محیط ہیں۔
  • قانون میں میڈیا آؤٹ لیٹس سے تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ ایسا کوئی مواد شائع نہ کریں جس سے شرعی قانون اور مذہب کی بےحرمتی ہوتی ہو یا جس میں جانداروں کو دکھایا گیا ہو۔
  • عدم تعمیل کی صورت میں، زبانی انتباہ،جرمانوں، ایک گھنٹے سے تین دن تک گرفتاری، یا دوسری سزائیں متعین کی گئی ہیں۔

افغانستان کے طالبان حکام نے اسلامی قوانین کی اپنی سخت تشریح کی بنیاد پر شہریوں کے طرز عمل اور طرز زندگی کے ضوابط کی وضاحت کرنے والے قوانین کی تشکیل کا اعلان کر دیا ہے ۔

اس سال 31 جولائی کو 35 شقوں پر مشتمل قانون کو سرکاری گزٹ میں شائع کیا گیا تھا جس میں ممنوعہ طرز عمل اور طرز زندگی کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی تھیں۔

’امارات اسلامیہ افغانستان ‘میں، جو طالبان حکومت کا سرکاری نام ہے لوگ پہلے سے بھی ان تمام ممنوعہ رویوں اور زندگی گزارنے کے طریقوں سے واقف ہیں لیکن اس قانون کا نفاز افغان شہریوں پر حکومت کے کنٹرول میں اضافہ کر سکتا ہے ۔

وزارت انصاف نے بدھ کو اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا ہےکہ طالبان کے سپریم لیڈر، ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اس قانون کی منظوری دےدی ہے۔ ہیبت اللہ لوگوں کے سامنے بہت کم آتے ہیں۔

طالبان کے سپریم لیڈر، ہیبت اللہ فائل فوٹو
طالبان کے سپریم لیڈر، ہیبت اللہ فائل فوٹو

سال 2021 میں جب سے طالبان حکام بر سر اقتدار آئے ہیں اخلاقیات سے متعلق افغانستان کی ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ نامی وزارت کا عملہ افغانستان کی سڑکوں اور گلیوں میں اخلاقیات کے قانون پر عمل درآمد کروارہا ہے ۔

اخلاقیات کے اس قانون میں اب ان امور کے بارے میں عملے کے اختیارات کی وضاحت کر دی گئی ہے جو سماجی ربط ضبط سے لے کر نجی زندگیوں اور لباس تک محیط ہیں ۔

جولائی میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ،جس میں طالبان حکومت پر خوف کی فضا پیدا کرنے کا الزام عائدکیا گیا تھا ، طالبان حکومت نے حال ہی میں کہا ہے کہ افغانستان میں مذہبی قانون پر عمل درآمد میں اخلاقیات کے نفاذ سے متعلق پولیس کا عمل دخل بڑھ جائے گا۔

یہ قانون خاص طورپر یہ تقاضا کرتا ہے کہ "مسلم خواتین، اپنے ارد گرد ان مردوں کی موجودگی میں جو نا محرم ہیں ، اپنے چہرے اور جسم کو ڈھانپنے کی پابند ہیں۔ "

"اگر کسی بالغ عورت کو کسی ضرورت کے تحت اپنے گھر سے لازمی طور پر باہر نکلنا پڑے ، تو وہ اپنے چہرے اور جسم کو ڈھانپنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی پابند ہے کہ اس کی آواز سنی نہ جائے۔"

مردوں کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھٹنے سے اوپر تک کی شلواریں نہ پہنیں یا اپنی داڑھی کو زیادہ چھوٹا نہ تراشیں۔

گاڑیوں کے ڈرائیورز کے لیے بھی پابندیاں جاری کی گئی ہیں۔ ان پر گاڑیوں میں میوزک چلانے، منشیات استعمال کرنے ،بے پردہ خواتین کو اور ان خواتین کو بٹھانے پر پابندی ہے جن کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔

دوسری شقوں میں، ہم جنس پرستی، نماز قضا کرنے، زنا، جوے، جانوروں کو لڑانے یا اپنے والدین کی نافرمانی پر پابندی کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر یا فون پر جانداروں کی تصاویر بنانے یا دیکھنے پر پابندی شامل ہے۔

قانون میں میڈیا آؤٹ لیٹس سے تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ ایسا کوئی مواد شائع نہ کریں جس سے شرعی قانون اور مذہب کی بےحرمتی ہوتی ہو یا جس میں جانداروں کو دکھایا گیا ہو۔

اس قانون کے تحت عدم تعمیل کی صورت میں، زبانی انتباہ، جرمانوں ، ایک گھنٹے سے تین دن تک گرفتاری، یا اخلاقی پولیس کی جانب سے درخواست کی گئی دوسری سزائیں متعین کی گئی ہیں۔

جرائم کو دہرانے والوں کو عدالتوں میں بھیجا جائے گا۔

اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG