پاکستان نے حال ہی میں افغانستان میں نیٹو کی فوجوں کے لیے سامان رسد بھیجنے کا ایک راستہ دوبارہ کھول دیا ہے۔ اس راستے کو جنوبی راستہ کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس راستے کے علاوہ، نیٹو کی فورسز ایک اور بڑا راستہ بھی استعمال کر رہی ہیں۔ جنوبی راستے کے مقابلے میں جس میں افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی فورسز کو فوجی سامان بھیجنے کے لیے ٹرک استعمال کیے جاتے ہیں، یہ دوسرا ، شمالی راستہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ۔ اس میں سپلائی لائنز کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک استعمال کیا جاتا ہے ۔
نیو یارک کے برنارڈ کالج میں وسط ایشیا کے امور کے ماہر الیگزینڈر کولی کہتے ہیں’’شمالی راستے میں، بحری جہاز، سڑکیں، ریلوے اور ہوائی جہاز ، سب کو ملا جلا کر استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ کوئی ایک راستہ نہیں ہے۔ یہ در اصل کئی مختلف راستے ہیں جو بالٹک کی ریاستوں سے نکلتے ہیں، اور پھر پرانی سوویت عہد کی ریل گاڑیوں کے ذریعے، یہ سامان روس اور پھر قزاقستان سے ہو کر گذرتا ہے ۔ بیشتر ریل گاڑیاں ازبکستان سے ہو کر سرحدی قصبے ترمز پہنچتی ہیں۔‘‘
ترمز سے، ٹرکوں میں لدا ہوا سامان ’’فرینڈشپ برج‘‘ سے ہو کر افغانستان میں داخل ہو جاتا ہے ۔
رینڈ کارپوریشن میں افغانستان کے امور کے ماہر سیتھ جونز کہتے ہیں کہ یہ سارا سامان ریل سے آئے یا ہوائی جہازوں سے یا ٹرکوں سے، نیٹو اور امریکہ کو ہر ملک کے ساتھ ، جہاں سے یہ سامان گذرتا ہے، سمجھوتوں پر دستخط کرنے پڑتے ہیں۔
’’اس سے پہلے کہ کوئی بھی سامان وسط ایشیا کے کسی ملک سے یا روس سے ہو کر گذرے، انہیں یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ ان ملکوں کی حکومتیں کتنے پیسے لیں گی، اور وہ کمپنیاں جو سامان بر آمد یا در آمد کر رہی ہیں، وہ کتنا پیسہ بنائیں گی ۔ لہٰذا اس سامان کی ترسیل میں شامل ملکوں اور پرائیویٹ کمپنیوں کو بہت سی تفصیلات طے کرنی پڑتی ہیں۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ اس کام کے عوض ہر ملک کو کتنا پیسہ دیا جاتا ہے اور اس کے ضابطے کیا ہیں، یہ سب چیزیں خفیہ ہیں ۔ لیکن چونکہ شمالی راستہ بہت پیچیدہ ہے، اس لیے ماہرین کا اندازہ ہے کہ جنوبی راستے کے مقابلے میں، اس شمالی نیٹ ورک کے ذریعے سامان بھیجنے میں تقریباً دگنا پیسہ خرچ ہوتا ہے ۔
تا ہم، گذشتہ سات مہینوں میں، افغانستان کو سامان صرف شمالی راستے سے ہی بھیجا جا سکتا تھا ۔ پاکستان نے یہ جنوبی راستہ گذشتہ نومبر میں اس وقت بند کر دیا تھا جب امریکہ کی قیادت میں ایک ہوائی حملے میں، افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے نزدیک 24 پاکستانی سپاہی اتفاقاً ہلاک ہو گئے تھے ۔ اسلام آباد نے حال ہی میں یہ راستہ دوبارہ کھول دیا جب وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ پاکستانی فوج کو جو نقصان اٹھانا پڑا ہے اس پر امریکہ کو افسوس ہے ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب امریکہ اور نیٹو کے ممالک افغانستان سے اپنی فوجی موجودگی ختم کریں گے، تو جنوبی اور شمالی راستے دونوں ، سپاہیوں اور ساز و سامان کو افغانستان سے نکالنے کے لیے بھی استعمال کیے جائیں گے ۔
الیگزینڈر کولی کہتے ہیں کہ سپاہیوں اور سامان کو واپس لے جانے کا آپریشن، متعلقہ ملکوں کے لیے آمدنی کا ایک اور ذریعہ ہو گا۔’’ایک تاثر یہ ہے کہ فوجیوں اور سازو سامان کو نکالنے کا کام بس ایک ہی ہلّے میں مکمل ہو جائے گا، اور وہ پیسے کی ادائیگی کے لیے اس وقت دباؤ ڈال سکتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہوئے کہ نیٹو اور امریکہ اپنا سامان جلد از جلد نکالنا چاہیں گے، زیادہ پیسے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔‘‘
انسانی حقوق کی بہت سی تنظیمیں اس کے خلاف ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان سے اپنا سامان اور فوجی نکالنے کے لیے مطلق العنان حکومتوں پر انحصار کریں ۔
کولی کہتے ہیں کہ کم عرصے کی فوجی ضرورتوں اور طویل مدت کی جمہوری امنگوں کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل ہے۔
’’گذشتہ دس برسوں میں، امریکہ اور نیٹو نے انسانی حقوق کے معاملات پر اپنی تنقید کم کر دی ہے اور دوسرے امور کے مقابلے میں، سیکورٹی اور جنگ کے لیے ضروری سازو سامان کے شعبوں پر توجہ بڑھا دی ہے ۔ ایک لحاظ سے وسط ایشیا کا علاقہ افغانستان کی جنگ کا ضمیمہ بن گیا ہے ۔ جو لوگ انسانی حقوق کی جدو جہد میں مصروف ہیں، جب وہ جمہوریت اور انسانی حقوق پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ چاہیں گے کہ واشنگٹن اپنی پالیسی میں کچھ زیادہ دیانتداری سے کام لے، اور وسط ایشیا میں جو کچھ ہوا ہے، اسے افغانستان کی جنگ کا سیاسی سانحہ قرار دے ۔‘‘
رینڈ کارپوریشن کے سیتھ جونز کہتے ہیں کہ وسط ایشیا کے علاقے میں زیادہ جمہوریت کے قیام میں اب تک کوئی بڑی کامیابی نہیں ہوئی ہے، اور نہ ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے ۔
نیو یارک کے برنارڈ کالج میں وسط ایشیا کے امور کے ماہر الیگزینڈر کولی کہتے ہیں’’شمالی راستے میں، بحری جہاز، سڑکیں، ریلوے اور ہوائی جہاز ، سب کو ملا جلا کر استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ کوئی ایک راستہ نہیں ہے۔ یہ در اصل کئی مختلف راستے ہیں جو بالٹک کی ریاستوں سے نکلتے ہیں، اور پھر پرانی سوویت عہد کی ریل گاڑیوں کے ذریعے، یہ سامان روس اور پھر قزاقستان سے ہو کر گذرتا ہے ۔ بیشتر ریل گاڑیاں ازبکستان سے ہو کر سرحدی قصبے ترمز پہنچتی ہیں۔‘‘
ترمز سے، ٹرکوں میں لدا ہوا سامان ’’فرینڈشپ برج‘‘ سے ہو کر افغانستان میں داخل ہو جاتا ہے ۔
رینڈ کارپوریشن میں افغانستان کے امور کے ماہر سیتھ جونز کہتے ہیں کہ یہ سارا سامان ریل سے آئے یا ہوائی جہازوں سے یا ٹرکوں سے، نیٹو اور امریکہ کو ہر ملک کے ساتھ ، جہاں سے یہ سامان گذرتا ہے، سمجھوتوں پر دستخط کرنے پڑتے ہیں۔
’’اس سے پہلے کہ کوئی بھی سامان وسط ایشیا کے کسی ملک سے یا روس سے ہو کر گذرے، انہیں یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ ان ملکوں کی حکومتیں کتنے پیسے لیں گی، اور وہ کمپنیاں جو سامان بر آمد یا در آمد کر رہی ہیں، وہ کتنا پیسہ بنائیں گی ۔ لہٰذا اس سامان کی ترسیل میں شامل ملکوں اور پرائیویٹ کمپنیوں کو بہت سی تفصیلات طے کرنی پڑتی ہیں۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ اس کام کے عوض ہر ملک کو کتنا پیسہ دیا جاتا ہے اور اس کے ضابطے کیا ہیں، یہ سب چیزیں خفیہ ہیں ۔ لیکن چونکہ شمالی راستہ بہت پیچیدہ ہے، اس لیے ماہرین کا اندازہ ہے کہ جنوبی راستے کے مقابلے میں، اس شمالی نیٹ ورک کے ذریعے سامان بھیجنے میں تقریباً دگنا پیسہ خرچ ہوتا ہے ۔
تا ہم، گذشتہ سات مہینوں میں، افغانستان کو سامان صرف شمالی راستے سے ہی بھیجا جا سکتا تھا ۔ پاکستان نے یہ جنوبی راستہ گذشتہ نومبر میں اس وقت بند کر دیا تھا جب امریکہ کی قیادت میں ایک ہوائی حملے میں، افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے نزدیک 24 پاکستانی سپاہی اتفاقاً ہلاک ہو گئے تھے ۔ اسلام آباد نے حال ہی میں یہ راستہ دوبارہ کھول دیا جب وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ پاکستانی فوج کو جو نقصان اٹھانا پڑا ہے اس پر امریکہ کو افسوس ہے ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب امریکہ اور نیٹو کے ممالک افغانستان سے اپنی فوجی موجودگی ختم کریں گے، تو جنوبی اور شمالی راستے دونوں ، سپاہیوں اور ساز و سامان کو افغانستان سے نکالنے کے لیے بھی استعمال کیے جائیں گے ۔
الیگزینڈر کولی کہتے ہیں کہ سپاہیوں اور سامان کو واپس لے جانے کا آپریشن، متعلقہ ملکوں کے لیے آمدنی کا ایک اور ذریعہ ہو گا۔’’ایک تاثر یہ ہے کہ فوجیوں اور سازو سامان کو نکالنے کا کام بس ایک ہی ہلّے میں مکمل ہو جائے گا، اور وہ پیسے کی ادائیگی کے لیے اس وقت دباؤ ڈال سکتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہوئے کہ نیٹو اور امریکہ اپنا سامان جلد از جلد نکالنا چاہیں گے، زیادہ پیسے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔‘‘
انسانی حقوق کی بہت سی تنظیمیں اس کے خلاف ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان سے اپنا سامان اور فوجی نکالنے کے لیے مطلق العنان حکومتوں پر انحصار کریں ۔
کولی کہتے ہیں کہ کم عرصے کی فوجی ضرورتوں اور طویل مدت کی جمہوری امنگوں کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل ہے۔
’’گذشتہ دس برسوں میں، امریکہ اور نیٹو نے انسانی حقوق کے معاملات پر اپنی تنقید کم کر دی ہے اور دوسرے امور کے مقابلے میں، سیکورٹی اور جنگ کے لیے ضروری سازو سامان کے شعبوں پر توجہ بڑھا دی ہے ۔ ایک لحاظ سے وسط ایشیا کا علاقہ افغانستان کی جنگ کا ضمیمہ بن گیا ہے ۔ جو لوگ انسانی حقوق کی جدو جہد میں مصروف ہیں، جب وہ جمہوریت اور انسانی حقوق پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ چاہیں گے کہ واشنگٹن اپنی پالیسی میں کچھ زیادہ دیانتداری سے کام لے، اور وسط ایشیا میں جو کچھ ہوا ہے، اسے افغانستان کی جنگ کا سیاسی سانحہ قرار دے ۔‘‘
رینڈ کارپوریشن کے سیتھ جونز کہتے ہیں کہ وسط ایشیا کے علاقے میں زیادہ جمہوریت کے قیام میں اب تک کوئی بڑی کامیابی نہیں ہوئی ہے، اور نہ ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے ۔