افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے انتباہ کیا ہے کہ افغان پولیس اور فوج نیٹو سے سلامتی کی ذمہ داریاں اپنے ہاتھوں میں لینے کی تیاریاں کر رہی ہے مگر دوسری طرف اُن پر حملوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے جمعرات کو افغان پارلیمان کےایک خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقامی فورسز کی استعداد کار بڑھانے کے لیے افغانستان ہر ممکن اقدامات کرے گا چاہے اس کے لیے’’گھاس بھی کھانی پڑے‘‘۔
’’میں دیکھ سکتا ہوں کہ ان دنوں، گزشتہ ایک، دو یا تین مہینوں میں ہمارے فوجیوں، پولیس اور خفیہ اداروں کے افسران پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
ایک روز قبل مشرقی صوبے خوست میں طالبان باغیوں کے ایک خودکش بم حملے میں 21 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
رواں ہفتے عسکریت پسندوں نے افغان اور نیٹو افواج کی مجموعی طور پر تین مشترکہ چوکیوں پر مہلک خودکش حملے کیے ہیں اور صدر کرزئی کے تازہ بیان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد قومی سلامتی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی مقامی سکیورٹی فورسز کی اہلیت کے بارے میں شکوک و شبہات کو تقویت ملے گی۔
’’ہر روز 20 سے 25 نوجوانوں کو اس ملک کے لیے قربانی دینی پڑ رہی ہے اور انھیں ہلاک کیا جا رہا ہے۔‘‘
صدر کرزئی نے اعتراف کیا کہ اُن کی حکومت اور اس کے مغربی اتحادی افغانستان میں امن لانے میں ناکام ہو گئے ہیں جہاں گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل جنگ جاری ہے۔ ’’ہماری سرزمین محفوظ نہیں، ہمارے گھر، ہمارے لوگ محفوظ نہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ افغان سکیورٹی فورسز کو 2024ء تک ہر سال بین الاقوامی برادری کی جانب سے چار اعشاریہ ایک ارب ڈالرز فراہم کیے جائیں گے جب کہ ملک کے اقتصادی مستقبل پرآئندہ ماہ ٹوکیو میں ہونے والی کانفرنس کے موقع پر مزید چار ارب ڈالر سویلین امداد کے طور پر ملنے کی توقع ہے۔
مزید برآں مسٹر کرزئی نے قانون سازوں سے کہا کہ وہ انسداد بدعنوانی کی کوششوں میں حکومت کی مدد کریں کیوں کہ ملک میں بدعنوانی ’’انتہا‘‘ کو پہنچ چکی ہے۔
افغان صدر نے اپنی تقریر میں امریکہ پر زور دیا کہ وہ افغان مرکزی بینک کے مفرور سابق گورنر عبدالقدیر فطرت کو افغانستان کے حوالے کرے تاکہ اُنھیں بدعنوانی کے الزام میں انصاف کے کہٹرے میں لایا جاسکے۔
عبدالقدیر فطرت یہ کہہ کر مرکزی بینک کے سربراہ کے عہدے سے دست بردار ہو کر بیرون ملک چلے گئے تھے کہ 90 کروڑ ڈالر مالیت کے اسکینڈل کے بارے میں بات کرنے کی وجہ سے اُن کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے۔
لیکن صدر کرزئی نے اُن کی وطن واپسی کا مطابلہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ عبالقدیر نے اُنھیں بینک کی صورت حال کے بارے میں گمراہ کیا۔