افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے افغانستان میں شدت پسندوں سے بات چیت میں سعودی عرب کو اہم کردار ادا کرنے کی دعوت دی ہے۔ افغانستان کے مستقبل پر لندن میں جمعرات کو ہونے والی عالمی کانفرنس میں صدر کرزئی نے کہا کہ ”اس پروگرام کی کامیابی کے لیے ہم چاہیں گے کہ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز امن کے اس عمل میں ہماری رہنمائی اور اعانت کریں‘‘۔
اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے پڑوسی ممالک اور خصوصًا پاکستان سے حمایت کی درخواست کی۔
اس سے پہلے برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن اعلان کر چکے تھے کہ افغان طالبان سے بات چیت کے سلسلے میں اہم فیصلے ہو چکے ہیں۔ ”صدر کرزئی کی کوششوں کی حمایت میں ہم ایک عالمی ٹرسٹ فنڈ قائم کر رہے ہیں تاکہ افغان قیادت میں امن کے قیام اور مزاحمت کاروں کو سماجی دھارے میں واپس لانے کے پروگرام کو عملی جامع پہنایا جا سکے اور جن لوگوں کے پاس کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ان کی مدد کی جا سکے‘‘۔
مدد کے اس وعدے کے حقدار وہ افراد قرار پائے ہیں جو تشدد کو ترک کر کے القاعدہ اور دیگر کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے تمام تعلقات ختم کر لیں اور افغان آئین کے تحت زندگی گزارنے پر تیار ہوں۔
خطے کا ایک اہم ملک ایران اس کانفرنس میں شریک نہ ہوا۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کے مطابق نہ صرف ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی کو بلکہ برطانیہ میں ایرانی سفیر کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ انھوں نے ایران کی غیر موجودگی پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محود قریشی نے بھی ایک سوال کے جواب پر ایران کی غیر موجودگی کو افسوس ناک قرار دیا۔ ”میں سمجھتا ہوں کہ آج ان کے لیے اچھا موقع تھا کہ اپنا موقف پیش کرتے اور نہ آ کر وہ اپنے موقف کو پیش کرنے سے محروم ہوگئے‘‘۔
افغانستان میں پڑوسی ممالک کے کردار پر پاکستان کا موقف رہا ہے کہ انڈیا کی کوئی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی، اس لیے افغانستان میں انڈیا کا کردار کلیدی نہیں ہونا چاہیئے۔ لیکن پاکستانی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ پاکستان انڈیا کو افغانستان میں کردار ادا کرنے سے روک نہیں سکتا۔ ”پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپنی بات ماننے پر مجبور کر سکے۔ افغانستان ایک آزاد ملک ہے۔ انڈیا ایک خود مختار ملک ہے اور ان کے باہمی تعلقات ہیں۔ انڈیا نے افغانستان میں بہت پیسہ لگایا ہے۔ انھوں نے تعمیر نو پر ایک ارب ڈالر لگایا ہے۔ اگر افغان اس سے خوش ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ خود مختار ملک ہیں اور اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں‘‘۔
البتہ مسٹر قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان ہی نہیں بلکہ روس اور چین کا بھی یہ خیال ہے کہ افغانستان میں انڈیا کا بہت اہم کردار نہیں ہونا چاہیئے۔
لندن میں ہونے والی عالمی کانفرنس کی تین بڑی ترجیحات تھیں۔
افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے، بد عنوانی کے خاتمے اور افغانستان کے مسائل کے حل کے لیے پڑوسی ممالک کے کردار پر ٹھوس اقدامات کا تعین کرنا۔
برطانوی وزیر اعظم نے افغانستان میں عالمی طاقتوں کی نئی سٹریٹجی کو ”افغانائزیشن” کا نام دیا اور کہا کہ اس کی بنیاد افغان اداروں کو مستحکم کرنا ہے۔
اس نئی سٹریٹجی کے تحت اکتوبر 2011ء تک افغان پولیس اور فوج کی مشترکہ تعداد تین لاکھ تک پہنچ جائے گی اور افغانستان میں سیکورٹی کا کنٹرول رفتہ رفتہ افغانوں کو سونپ دیا جائے گا۔
افغان صدر کرزئی نے اس پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگلے پانچ سال میں افغان افواج اور پولیس ملک کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھال لیں گی۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ اگلے دس سے 15 سال تک افغانستان اپنی افواج اور پولیس کے مالی اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں ہوگا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اقوام عالم کو یاد دلایا کہ سیکورٹی کے مسائل میں انسانی حقوق کو فراموش نہ کیا جائے۔ ”میں تمام فریقوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کا احترام کریں‘‘۔
کانفرنس میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ افغانستان میں فوج اور پولیس کو تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی تعمیر نو کے لیے اگلے دو سال میں پچاس فیصد تک امداد بڑھا دی جائے گی۔
مسٹر براؤن نے اس ہفتے ہونے والے ایک اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور افغانستان کو قرض دینے والے دیگر ممالک ایک اعشاریہ چھ بلین ڈالر کے قرضے معاف کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے افغانستان کے لیے نئی سٹریٹجی کی حمایت کرتے ہوئے اصرار کیا کہ اس تمام عمل میں افغانستان کی خواتین کا کلیدی کردار ہونا چاہیئے۔ انھوں نے اس سلسلے میں اپنے ویمنز ایکشن پلان کی تفصیلات بتائیں۔ ”اس میں خواتین کی سیکورٹی، سرکاری اور نجی شعبوں میں ان کی لیڈرشپ، عدلیہ، تعلیم اور صحت کے وسائل تک خواتین کی رسائی، معاشی وسائل اور خصوصًا زرعی شعبے میں معاشی مواقع تک خواتین کی رسائی کے لیے منصوبے شامل ہیں۔ یہ اس ایجنڈے کے بالکل برعکس ہے جس کا اعلان القاعدہ نے افغانستان کی خواتین کے لیے کیا ہے۔ یعنی مغربی ممالک میں خواتین خود کش بمبار بھیجنا‘‘۔
لندن میں ہونے والی اس کانفرنس میں 70 کے قریب ممالک کے وزراء خارجہ شریک تھے۔